• news

ہاکی بائی چالاکی

یہ اوائل 80کے عشرے کی بات ہے پاکستان میں ہر طرف مارشل لاءکا دور دورہ تھا۔ انہی دنوں سٹوڈنس یونین پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ میں ان دنوں کالج میں یونین کا صدر تھا۔ مارشلائی حکم کے خلاف ہم نے مزاحمتی تحریک چلائی جس کی پاداش میں جلاوطنی کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ میری اگلی منزل سوئٹزرلینڈ تھی جہاں مجھے تعلیم جاری رکھنے کے مواقع میسر آئے۔ ہماری رنگت کو دیکھ کر اکثر لوگ یہ سوال کرتے ”آریوانڈین؟“ تو میرا ہمیشہ یہ جواب ہوتا ”نو آئی ایم ویری مچ پاکستانی“ لیکن یہ جواب دینے کے بعد ان کو یہ سمجھانا بڑا مشکل عمل تھا کہ ہم پاکستانی انڈیا سے علیحدہ ایک مملکت ہیں پھر آہستہ آہستہ مجھے اندازہ ہوا کہ ان گوروں کو کوئی ایسی نشانی بتائی جائے جن سے ان کو پاکستان کی پہچان کرنے میں آسانی رہے تو یقین جانیے میرے مشاہدہ میں یہ بات آئی کہ ہاتھ سے بنائے ہوئے قالین ذوالفقار علی بھٹو اور ہاکی کے کھیل کو یہ پاکستان کے حوالے سے جانتے ہیں۔ اب ہمیں اپنی پہچان کرانے میں آسانی ہو گئی۔ میں چونکہ دوران سکول ہاکی کھیلتا رہا تھا اس لیے جلد ہی وہاں کے مقامی قصبے اولئن ہاکی کلب جوائن کر لیا جس سے مجھے دیارِ غیر میں ہونے کے باوجود اپنا سا ماحول اور اپنائیت مل گئی ہم بڑے فخر سے دوستوں کو بتاتے کہ ہم اس ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کا قومی کھیل ہاکی ہے ۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کس دشمن کی حسد بھری نظریں ہمارے قومی کھیل اور ہماری شناخت کو لگ گئیں۔ اس تنزلی میں دیگر محرکات کے علاوہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے اس وقت کے عہدیداران بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر بریگیڈیئر ریٹائرڈ عاطف نے ایشیائی ہاکی کو نقصان پہنچانے میں کلیدی کردارادا کیا۔
یورپ اور آسٹریلیا جو کہ شروع ہی سے بھارت اور پاکستان کے روایتی حریف تھے نے فیلڈ ہاکی میں آسٹروٹرف متعارف کروایا جو یورپ اور امریکہ جیسے امیر ممالک تو نہ صرف افورڈ کر سکتے تھے بلکہ تھوڑے ہی عرصے میں ان ممالک میں ہزاروں آسٹروٹرف بچھا دی گئیں جبکہ بھارت اور پاکستان میں جہاں ہاکی کی نرسری دیہات اور قصبوں مین تیار ہوتی تھی اور جہاں تک ابھی سڑکیں نہ پہنچی تھیں وہاں پر اس وقت دو کروڑکی آسٹروٹرف بچھانا ناممکن تھا اور یوں پاکستانی نوجوان کھلاڑی پورا سال قدرتی گھاس کی گراﺅنڈ پر ہاکی سیکھتے پریکٹس کرتے اور میچ کھیلتے مگر جب ہاکی ٹیم کی سلیکشن کی باری آتی تو ان کھلاڑیوں کو لاہور اور کراچی میں آسٹروٹرف گراﺅنڈ پر ٹرائل دینا پڑتے جس کا گیند تک پلاسٹک کا ہوتا اور آج 2013ءمیں بھی ایک عام گھر کا لڑکا آسٹروٹرف پر کھیلنے کے لیے درکار جوتے خریدنے سے قاصر ہے۔ آج ایک گول کیپر کی مکمل کِٹ50سے 80ہزار روپے تک کی آتی ہے جبکہ آسٹروٹرف شوز 15سے 20 تک کے آتے ہیں لیکن یورپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا انہوں نے عالمی ہاکی میں نئی سٹک لازمی قرار دے دی جو کہ آسٹریلیا اور جرمنی خود تیار کرنے لگے مگر بھارت اور پاکستان میں اس صنعت سے وابسطہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے اور طرفہ تماشہ یہ کہ ایشیائی کھلاڑیوں کے مقابلے میں فٹنس میں یورپین کھلاڑی ہزار درجہ بہتر ہوتے ہیں جبکہ ہمارے نوعمر کھلاڑیوں کو تو مکمل خوراک بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ ایک یورپین ہاکی کوچ نے طنزاً کہا تھا کہ پاکستانی کھلاڑی کھیلتے ہوئے ایسے نظر آتے ہیں جیسے تین ہاکیاں میدان میں دوڑ رہی ہیں۔ اب تو فیلڈ ہاکی پر یورپ کی مکمل گرفت ہے اور انہوں نے ایسے قوانین رائج کروا دیئے ہیں جس سے پاکستان سمیت ایشیائی ہاکی ٹیموں کے لیے ہاکی ٹورنامنٹ جیتنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور خاص طور پر گذشتہ دس سال میں پاکستانی ہاکی جو زوال پذیر ہوئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ قاسم ضیاءکو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بنا دیا اور ایک سابقہ سازشی کھلاڑی آصف باجوہ کو سیکرٹری ہاکی فیڈریشن لگا دیا جنہوں نے ہاکی کو اور بھی بے آبرو کر دیا۔ جب کھیلوں کی فیڈریشن کے عہدیدران سیاسی لوگ لگا دیئے جائیں تو کھیل کا بھی وہی حشر ہوگا جو ملک کا ہوا۔
گذشتہ دنوں جب پاکستانی ٹیم پہلی دفعہ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کیا ۔ایشیا کپ سے پہلے بھی کوالیفائی کرنے کا ایک موقع ضائع کر دیا اس طرح میرے جیسے کروڑوں پاکستانیوں کے دل ٹوٹ گئے ۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری آصف باجوہ نے شکست کے بعد یہ بیان داغ دیا ہے کہ میں استعفیٰ نہیںدوں گا، تو یہ بزدلی ہو گی۔ اس سے زیادہ شرمناک بات اور ڈھٹائی کیا ہو سکتی ہے ۔ وزیراعظم میاں نوازشریف ہاکی کے اس بحران پر ایک ہنگامی اجلاس بلائیں اور قومی کھیل کی ڈوبی ہوئی کشتی کو کنارے پر پہنچانے کا اپنا کردار ادا کریں۔مجھے آج بھی یہ کہاوت یاد ہے کہ ” کرکٹ بائی چانس اور ہاکی بائی چالاکی“ کیا ہماری قوم میں ہاکی اور چالاکی دونوں ختم ہو گئی ہیں؟

ای پیپر-دی نیشن