ناقص تفتیش ‘ کمزور استغاثہ ‘ پنجاب میں 70 فیصد سے زائد سنگین مقدمات کے ملزم بری ہو جاتے ہیں
لاہور (محسن گورایا سے) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ ناقص تفتیش اور کمزور استغاثہ کی وجہ سے دہشت گرد چھوٹ جاتے ہیں۔ پنجاب پولیس اور محکمہ پراسیکیوشن کے اپنے اعداد و شمار چیف جسٹس کی بات پر گواہی دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے نوائے وقت کو دستیاب دستاویزات کے مطابق پنجاب میں ناقص تفتیش اور کمزور استغاثہ کی وجہ سے قتل، اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں اور راہزنی جیسے سنگین جرائم میں ملوث 70 فیصد سے زائد مقدمات کے ملزم بری ہو جاتے ہیں۔ 70 فیصد سے زیادہ ملزمان کے بری ہونے کی صرف دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ ناقص تفتیش و کمزور استغاثہ یا پھر جھوٹے مقدمات کا اندراج۔ دستاویز کے مطابق رواں سال کے آغاز میں صوبہ پنجاب کے 10 لاکھ 66 ہزار 319 مقدمات عدالتوں میں تھے۔ بعدازاں ان میں اب تک ایک لاکھ 34 ہزار 572 نئے پرچے درج ہو کر مقدمات میں شامل ہو گئے۔ یوں انکی تعداد 12 لاکھ 891 ہوگئی۔ اب تک ان میں سے عدالتوں نے 77767 مقدمات کا فیصلہ سنایا۔ ان میں عام اور خطرناک جرائم شامل ہیں۔ دستاویز کے مطابق ان مقدمات میں سے 39343 مقدمات میں ملزموں کو سزا ہوئی جبکہ 38424 مقدمات کے ملزم باعزت بری ہوگئے۔ یوں پنجاب میں اس سال کے دوران جرائم میں سزا کی شرح 51 فیصد ہے اور 49 فیصد مقدمات جھوٹے ہونے یا پھر کمزور استغاثہ اور ناقص تفتیش کے سبب بری ہوگئے۔ یہ تو تمام مقدمات کی شرح تھی مگر خطرناک جرائم میں سزا کی شرح بہت ہی کم ہے۔ قتل کے 2306 مقدمات کا فیصلہ ہوا، ان میں سے صرف 598 مقدمات میں سزا ہوئی اور 1708 مقدمات کے ملزمان بری ہو گئے۔ یوں قتل میں سزا کی شرح صرف 26 فیصد رہی اور 74 فیصد مقدمات کے ملزمان بری ہو گئے۔ اغوا برائے تاوان کے 78 مقدمات کا فیصلہ ہوا جن میں سے صرف 18 مقدمات میں سزا ہوئی جو 23 فیصد تھی اور 77 فیصد مقدمات کے ملزمان بری ہو گئے۔ ڈکیتی کے 1074 مقدمات کا فیصلہ ہوا جن میں سے 241 میں سزا ہوئی اور 833 مقدمات کے ملزمان بری ہو گئے۔ یوں اس جرم میں سزا کی شرح 22 فیصد رہی اور 78 فیصد مقدمات کے ملزمان بری ہو گئے۔ راہزنی کے 2186 مقدمات کا فیصلہ ہوا جن میں سے 539 میں سزا ہوئی اور 1647 مقدمات کے ملزمان بری ہو گئے۔ یہاں پر سزا کی شرح 25 فیصد رہی جبکہ 75 فیصد مقدمات کے ملزمان بری ہوئے۔