وکلا قتل‘ اغوا کیس: حکومت بے بس ہے تو لکھ کر دیدے قانون نافذ کرنیوالوں کی کارکردگی صفر ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے وکلا قتل، اغوا اور تشدد کیس میں حکومتی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ہی وکلا تنظیموںسے کہا ہے کہ وہ ایسے وکلا کی رکنیت ختم کریں جو پریکٹس کرنے کی بجائے کاروبار کر رہے ہیں دوسری جانب عدالت نے وکلا کیسوں میں اچھی کارکردگی دکھانے پر سندھ پولیس کی تعریف بھی کی ہے جبکہ وفاقی اور پنجاب پولیس کی ناقص کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا ریاست کی ذمہ داری ہے جو افسر پیشرفت نہیں دکھا رہا اس کا نام بتائیں اسے بلا لیتے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ حکومت اگر بے بس ہے تو لکھ کر دیدے۔ جڑواں شہروں کا یہ حال ہے تو باقی ملک میں کیا ہو رہا ہو گا۔ راولپنڈی ہائیکورٹ بار کے صدر توفیق آصف نے کہا کہ حکومت ہر بار مہلت مانگ لیتی ہے مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی، عدالت سیکرٹری دفاع کو بلائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسے بھی بلا لیتے ہیں مگر اس کے بعد کیس ختم ہو جائے گا جبکہ مقصد لاپتہ وکلاءکی بازیابی ہونی چاہئے جس پر توفیق آصف نے اپنی یہ استدعا واپس لے لی۔ ساہیوال کے وکیل کے بارے میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ وہ پریکٹس کرنے والے وکیل نہیں تھے بلکہ ان کا پولٹری کا کاروبار تھا اور ان کے کچھ کاروباری تنازعات بھی چل رہے تھے۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے توفیق آصف سے کہاکہ ایسے وکلا کی تو رکنیت ختم ہونی چاہئے جو وکالت کی بجائے کاروبار چلا رہے ہیں۔ لاہور سے لاپتہ ارشد شاہ کے بارے میں عدالت کو بتایا گیا کہ آئی جی پنجاب نے ڈی آئی جی آصف ظفر چیمہ کی سربراہی میںمشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنادی ہے جس کی تحقیقات جاری ہے۔ مجیب الرحمن کیانی کے قتل کے حوالے سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی ہے کچھ وقت دیا جائے۔ سردار منظر بشیر چیمہ تشدد کیس کے حوالے سے راولپنڈی پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ مقدمہ پر کام جاری ہے۔ چیف جسٹس نے پولیس پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کچھ بھی نہیں کر رہی، لا¶ لشکر لیکر سپریم کورٹ آجاتے ہیں اور کارکردگی صفر ہے۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے وکلا کے اغوا، قتل اور تشدد کے مقدمات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی صفر قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو ملزمان کیخلاف کارروائی کیلئے 15 روز کا وقت دے دیا ، جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اور ان کے ادارے لکھ کر دے دیں کہ وہ لاپتہ افراد اور وکلا کے مقدمات میں مکمل طورپر بے بس ہیں اور ان سے کچھ نہیں ہو سکتا، ہر بار افغانستان کا نام لے کر عدالت کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے ایم آئی، آئی ایس آئی سمیت تمام ملکی اداروں کی سہولیات حاصل ہونے کے باوجود ملزمان کیخلاف کارروائی نہ ہونا حکومتی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔