• news

پھٹے پرانے کپڑوں والے کیسے ہائیکورٹ آئیں‘ انصاف ملے تو انتشار پھیلانے والے کامیاب ہوں نہ کوئی دشمن کا آلہ کار بنے: جسٹس افتخار

پشاور (نوائے وقت رپورٹ + اے این این + اے پی اے) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں پر کڑی نظر رکھنا عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے، غریبوں کو عدالتوں میں گھسیٹنا انصاف نہیں، دہشت گردی کے مقابلے کا راستہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہے، مہذب معاشرے کی بنیاد قانون کی حکمرانی پر مبنی ہے قانون سے بالاتر کوئی نہیں، عدلیہ آئین کے مطابق معاشرے میں قیام امن اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے‘ اسلام میں عدل و انصاف لفظی معاملہ نہیں مذہبی فریضہ ہے‘ ماتحت عدلیہ بنیادی ڈھانچے کے بغیر فرائض ادا کر رہی ہے‘ ملک میں سائبر کرائمز سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے‘ وکلا ملک میں قانون کی حکمرانی کے لئے م¶ثر کردار ادا کریں‘ جعلی ڈگریوں پر بارز میں گھسنے والے وکلا کی نشاندہی کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں سپریم کورٹ میں انرول ہونے والے وکلا کی تقریب، جوڈیشل افسران اور پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تربیت کے بعد جوڈیشل افسران جلد انصاف کی فراہمی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے مقدمات میں انصاف کی فراہمی کے لئے عدالتی افسران کی تربیت ازحد ضروری ہے۔ عدلیہ میں جدید تربیت اور تحقیق کے فروغ سے فیصلوں کا معیار بلند ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ عدل و انصاف دیگر مذاہب کے لئے لفظی معاملہ ہو سکتا ہے لیکن اسلام آباد میں یہ مذہبی فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں ماتحت عدلیہ کو بنیادی ڈھانچے کے بغیر کام کرنا پڑ رہا ہے۔ سائبر کرائم سے متعلق ملک میں کوئی قانون نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انصاف کی جلد فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عدلیہ آئین کے اندر رہتے ہوئے معاشرے میں قیام امن اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے م¶ثر اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بار اور بنچ عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔ وکلا کو ملک میں قانون کی حکمرانی کے لئے م¶ثر کردار ادا کرنا چاہئے۔ 9 مارچ 2007ءکے بعد وکلا تحریک کے باعث وکالت کے پیشے کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ وکلا پیشہ وارانہ زندگی میں ایمانداری اور خلوص کو اپنا شعار بنائیں اور قائداعظمؒ کے نقش قدم پر چل کر قانون کی حکمرانی یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ وکلا بدعنوانی کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کے لئے بھی اپنا کردار ادا کریں۔ بدعنوان عناصر کی ہائی کورٹ رجسٹرار کے ذریعے چیف جسٹس کو نشاندہی کریں اور اس معاملے سے عدالت عظمیٰ کو بھی آگاہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بعض وکلا جعلی ڈگریوں کے ساتھ مختلف بارز کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کی بھی نشاندہی کی جائے تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عدلیہ کو ریاستی اداروں پر کڑی نظر رکھنے کیلئے آئین نے اختیارات دئیے ہیں، آئین کے تحت عوام کو انصاف کی فراہمی عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں قانون کسی دوسرے ادارے کے تابع ہو ریاست کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا اور جہاں حکومت قانون کے تحت ہو تو صورتحال پرامید ہوتی ہے، عدالتی فیصلوں سے عدلیہ اور وکلا پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریبوں کو عدالتوں میں گھسیٹنا انصاف نہیں ہے، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور قانون سے بالاتر کوئی نہیں، عوام کو انصاف ملنا شروع ہو گیا تو حالات بہتر ہو جائینگے دہشت گردی کے مقابلے کا راستہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں انسانی حقوق ڈائریکٹوریٹ کے قیام سے لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں آسانی ہو گی، اس ڈائریکٹوریٹ کا کریڈٹ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ دوست محمد خان کو جاتا ہے، جو وکلا میں ہر دل عزیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے وکلا نے قربانیاں دی ہیں اور جدوجہد کی ہے، لاہور ہو یا کراچی کا 12 مئی وکلا نے ہر جگہ قانون کی حکمرانی کیلئے مشکلات کا سامنا کیا ہے اور عوام نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ انہیں ملک میں قانون کی حکمرانی کے سوا کوئی نظام قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں ایک باب انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے مختص ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عزم کرنا ہے کہ لوگوں کو انصاف پہنچائیں گے مہذب معاشرے کی بنیاد قانون کی حکمرانی پر مبنی ہے، انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ نہ تو ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی قائم رہ سکتا ہے، معاشرے کے تمام طبقات کیلئے انصاف کا یکساں نظام ہونا چاہئے۔ قبل ازیں چیف جسٹس نے پشاور میں جوڈیشل اکیڈمی اور میزان ریڈیو کا بھی دورہ کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ دوست محمد خان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ چیف جسٹس نے پشاور ہائیکورٹ میں ہیومن رائٹس ڈائیکٹوریٹ کا بھی افتتاح کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ دوست محمد خان، پشاور ہائی کورٹ کے ججز اور وکلا کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ پھٹے پرانے کپڑے پہننے والے کس طرح انصاف کے لئے ہائیکورٹ آئیں۔ انسانی حقوق ڈائریکٹوریٹ سے غریبوں کو انصاف کے حصول میں آسانی ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 53ءسے لے کر 2007ءتک پے در پے آئین کو مارشل لا یا ایمرجنسی کے نفاذ کے نام پر معطل کیا گیا۔ ہم معاشرے میں عدل کی شمع روشن رکھیں گے تو یہ ہماری مشکلات کا خاتمہ کرے گی اور قانون کی حکمرانی ہو گی۔ بااثر طبقہ بعض اوقات لاچار اور غریب طبقے کے بنیادی حقوق کا استحصال کر کے طاقت کے توازن میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ مجرموں کو سزائیں نہ ہونا جرم کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے، عدالت کا کام انصاف کی فراہمی ہے، عدلیہ آزاد ہے اور بے دھڑک فیصلے کر رہی ہے۔ اقوام کی ترقی میں انصاف کی بہت اہمیت ہے۔ عدلےہ رےاست کا اےک اہم ستون ہے لہٰذا اس کو اپنی ذمہ داری نبھانے کےلئے قوی ہونا چاہئے کےونکہ ےہ رےاست کے دوسرے ستونوںکو بھی اداروں کے مابےن تنازعات کے حل کے ذرےعے مضبوط بناتی ہے۔ عدلیہ آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے عوام کی شکایات کا ازالہ کر کے معاشرے میں قیام امن کےلئے م¶ثر کردار ادا کر رہی ہے، ملک مےں فراہمی انصاف کے نظام سے بدعنوانی اور باقی برائےوں کو ختم کرنا بنچ اور بار دونوں کا فرض ہے، بطور قوم ہمےں آئےن کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے اصول پر کاربند رہنا ہو گا، سائلےن تک انصاف کی فراہمی کو ہر ممکن حد تک آسان بنانا اولین ذمہ داری ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف ہے تو انتشار پھیلانے والے کامیاب ہوں نہ کوئی دشمن کا آلہ کار بنے۔ جن کے پاس پینے کو پانی اور کھانے کو روٹی نہیں انہیں انصاف ملنا چاہئے، عدل ہی ہے جو ہماری بقاءکی ضمانت ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدل کے ناقابل تسخیر قلعہ کو کبھی بھی شورشیں برپا کرکے تباہ و برباد کیا جا سکا نہ اسے دشمنوں کی طاقت مسمار کر سکی۔

ای پیپر-دی نیشن