امریکہ اور روس شام کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر متفق: آپشن زیر غور نہیں : کیری
دمشق/ جنیوا (بی بی سی+ اے ایف پی+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت نیوز) امریکہ اور روس، شام کے کیمیائی ہتھیاوں کے معاملے پر ایک چھ نکاتی منصوبے پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت 2014ءکے وسط تک یہ ہتھیار شام سے منتقل یا پھر تلف کردئیے جائیں گے۔ یہ اعلان روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف اور انکے امریکی ہم منصب جان کیری کے درمیان تین روز تک جنیوا میں جاری بات چیت کے بعد کیا گیا۔ بات چیت کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ سمجھوتے کے مطابق شام کو لازمی طور پر کیمیائی ہتھیاروں سے دستبردار ہونے سے متعلق دئیے گئے وقت کی پابندی کرنا ہوگی۔ جان کیری نے کہا کہ شام ایک ہفتے میں اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کی فہرست فراہم کرے اور نومبر تک عالمی معائنہ کاروں کو رسائی دے۔ انکا کہنا تھا بشار الاسد کی حکومت کو اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔ اب کسی قسم کا کھیل کھیلنے کی گنجائش نہیں اور اسد حکومت کو مکمل طور پر پابندی کرنا ہوگی۔ شام کے مسئلے کو کسی فوجی آپشن زیرغور نہیں ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ طے شدہ سمجھوتے میں اس بات کا ذکر نہیں کہ اگر شام اس ٹائم فریم کی پابندی نہیں کرتا تو اس کیخلاف ممکنہ طور پر طاقت کا استعمال ہوگا لیکن کسی قسم کی خلاف ورزی کا جائزہ سلامتی کونسل میں لیا جائے گا۔ اوباما نے کہا ہم سفارتکاری کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں لیکن اسکی ناکامی پر شام کیخلاف فوجی کارروائی کا آپشن موجود ہے۔ حکام کے مطابق روس کے شدید اعتراضات کے بعد اب امریکہ شام سے متعلق قرارداد میں فوجی طاقت کے استعمال کے اصرار سے بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس کے علاوہ بات چیت میں شام میں ڈھائی سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے امن بات چیت شروع کرنے پر بھی بات کی گئی ہے۔ شام کیخلاف فوجی کارروائی کے معاملے پر امریکہ کے حامی فرانس، جرمنی، اقوام متحدہ نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے۔ تاہم شام میں حکومت مخالف باغیوں کے تنظیم فری سیریئن آرمی نے اس سمجھوتے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ لڑائی جاری رکھیں گے۔ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا جائزہ لینے والے وفد کے سربراہ انسپکٹر آکے سیلسٹروم نے اب اس کی تصدیق کر دی ہے کہ ان کی رپورٹ مکمل ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا رپورٹ مکمل ہے اب یہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پر منحصر ہے کہ وہ اسے کب پیش کرتے ہیں۔آن لائن کے مطابق شام کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے کا مکمل رکن ملک بن گیا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ میں متعین شامی سفیر بشارالجعفری نے نیویارک میں عالمی ادارے کو متعلقہ دستاویزات جمع کرا دی ہیں۔ انہوں نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ "قانونی طور پر شام کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کا رکن ملک بن گیا ہے۔ صدر بشارالاسد نے اس کی رکنیت کے لئے ایک قانونی فرمان پر دستخط کردئیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ عرب جمہوریہ شام کیمیائی ہتھیاروں کے امتناع کے کنونشن کو تسلیم کرتا ہے اور وزیرخارجہ ولید المعلم نے تنظیم برائے امتناع کیمیائی ہتھیار کو خط لکھا ہے جس میں اس سے کہا گیا ہے کہ وہ شام کے فیصلے کا نوٹیفکیشن جاری کردے۔ بشارالجعفری نے کہا کہ شام کے کیمیائی ہتھیار اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کیخلاف سد جارحیت کیلئے ہیں۔پینٹاگون نے کہا ہے کہ شام پر فوجی حملے کی دھمکی نے معاملے کے سفارتی حل کی پیشرفت میں اہم کردار ادا کیا۔ شام سے متعلق روس اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے باوجود مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی پوزیشن تبدیل نہیں کی۔ امریکی فوج اب بھی شام پر حملے کے لئے تیار ہے۔اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ کیمیائی معاہدے پر دستخط کیلئے شامی دستاویزات موصول ہو گئی ہیں۔ 30 روز میں 14 اکتوبر تک شام کو معاہدے میں شامل کر لیا جائے گا۔