نوازشریف کل انقرہ روانہ ہونگے، ترکی کا طالبا ن کو رابطہ دفتر کھولنے کی اجازت دینے کا امکان
لاہور (سلیم بخاری/ دی نیشن رپورٹ) وزیراعظم محمد نواز شریف کل (16 ستمبر) کو ترکی کے سہ روزہ دورہ پر انقرہ کیلئے روانہ ہونگے۔ ان کا یہ دورہ بہت حساس اور نازک وقت میں ہو رہا ہے اور اس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔ دورہ ترکی کے موقع پر وہ ترک وزیراعظم عبداللہ گل اور اپنے ہم منصب رجب طیب اردگان سے باہمی دوطرفہ امور عالمی مسائل پر تبادلہ خیالات کرینگے۔ اے پی سی میں اتفاق رائے کے بعد جبکہ حکومت پاکستان افغانی اور پاکستانی طالبان کے مختلف دھڑوں میں مذاکرات کی تیاری کر ر ہی ہے، ترکی سٹریٹجک پوائنٹ پر موجود ہونے کے باعث امریکہ کے اتحادی کے طور پر مصر اور شام کے معاملات میں گہرے طور پر ملوث ہے۔ ترکی جنگ زدہ افغانستان میں امن کے قیام کی راہ ڈھونڈنے میں براہ راست ملوث رہا ہے۔ اس نے استنبول میں انٹرا افغان مذاکرات کا اہتمام کیا جس سے دوحہ میں امریکی حکام کے ساتھ طالبان کمانڈروں کی ملاقات ہوئی اگرچہ دفتر خارجہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس دورے کے ایجنڈا میں یہ بات شامل ہے تاہم امکان ہے کہ ترکی کی حکومت اپنے ملک میں طالبان کو رابطہ دفتر کھولنے کی اجازت دیدے گی۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے پاکستانی عوام کی خواہشات کے عین مطابق مصر اور شام کے بارے میں اصولی اور جرا¿ت مندانہ موقف اپنایا۔ پاکستان مصر کے منتخب جمہوری صدر مرسی کے حق حکمرانی کی حمایت کرتا ہے اور وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے طاقت کے استعمال کا مخالف ہے، وہ مسئلے کا سفارتی حل چاہتا ہے۔ تیزی سے بدلتی صورتحال کے باعث وزیراعظم نوازشریف، ترک صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم طیب اردگان سے ملاقات سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے تاکہ اس معاملے میں مشترکہ سوچ سے مختلف عالمی مسائل سے نبردآزما ہوا جائے۔ سفارتی مبصرین کے مطابق دونوں فریقین او آئی سی سمیت اسلامی فورمز کے احیاءپر بھی توجہ مرکوز کرینگے۔ وزیراعظم نواز شریف کے ترکی کے صدر اور وزیراعظم دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ دونوں میں اکثر ملاقاتیں ہوئیں۔ نواز شریف نے 2011ءاردگان کی دعوت پر ترکی کا دورہ کیا تھا۔ اردگان سے دوسری ملاقات ان کے سہ روزہ دورہ¿ پاکستان کے موقع پر ہوئی۔ انہوں نے 2005ءکے زلزلہ اور 2010ءکے سیلاب میں ترکی کے کردار کو سراہا تھا۔ اردگان کے یہ کلمات تاریخی ہیں کہ پاکستان، ایران، ترکی اور افغانستان کا مستقبل ایک ہے۔ اردگان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان اور ترکی کے مشترکہ دشمنوں کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی اور پاکستان اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے بانی ممبر ہیں اور یہ ڈی ایٹ کا حصہ ہیں۔ دونوں ممالک نے ترجیحی تجارتی سمجھوتے پر بات کی جس کا مقصد تجارت اور سرمایہ کاری کا فروغ ہے اور خصوصی طور پر ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونی کیشنز، مینوفیکچرنگ، ٹورازم اور دوسری صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف ٹاپ بزنس مین اور سرمایہ کاری کمپنیوں کے سی ای اوز سے ملاقات کرینگے۔ 19 ستمبر کو وہ استنبول میں بزنس فورم کے ارکان سے سائیڈ لائن ملاقات کرینگے۔ دونوں ممالک نے 2010ءسے باہمی تجارتی حجم 690 ملین ڈالر سے ایک بلین ڈالر تک لے جانے کی سعی کی۔ اس سے دونوں ممالک کی تجارت 15 بلین ڈالر تک جا پہنچی۔ ترکی میونسپل اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں حکومت پنجاب سے معاونت کر رہا ہے۔ پاکستان نے پہلی ورلڈ کلاس میٹرو بس سروس ترکی کے تعاون سے ہی شروع کی۔