وزیراعظم کی ہدایت پر اسحق ڈار کا لندن میں خورشید شاہ کو فون ‘ چیئرمین نیب کی تقرری پر مشاور ت
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ نیٹ نیوز) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سے لندن ٹیلیفونک رابطہ کرکے چیئرمین نیب کے تقرر کے معاملے پرصلاح مشورہ کیا۔ اسحاق ڈار نے خورشید شاہ سے شکوہ کیا کہ وہ وزیراعظم کو 2 نئے نام دئیے بغیر لندن چلے گئے جبکہ انہوں نے اے پی سی میں بھی فوری نام دینے کا وعدہ کیا تھا کیونکہ حکومت جلد چیئرمین نیب کا تقرر کرنا چاہتی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق فوری طور پر چیئر مین نیب کے تقرر کے اقدامات کرنا ہیں،آپ نے کہا تھا کہ لندن جانے سے پہلے اس معاملے پر کسی نتیجے پر پہنچیں گے، آل پارٹیز کانفرنس میں بھی چیئرمین نیب کے تقرر پر بات ہوئی مگر ابھی تک بات نہیں بنی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ 19 ستمبر کو وطن واپس پہنچوں گا اور اس معا ملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسحاق ڈار نے میڈیا سے گفتگو کرکے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سے رابطے کی تصدیق کی اور کہا کہ چیئرمین نیب کے تقرر کے معاملے پر فوری طور پر مل بیٹھنے پر صلاح مشورہ کیا ہے۔ قائد حزب اختلاف کی واپسی پر جلد چیئرمین نیب کا تقرر کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق خورشید شاہ کی طرف سے چیئرمین نیب کا نام 16 ستمبر تک دینے کا عندیہ دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے چیئرمین نیب کا نام فائنل کرلیا گیا ہے۔ آئندہ دو روز تک حکومت کو مجوزہ نام سے آگاہ کردیا جائیگا۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے حکومت کو فوری طور پر چیئرمین نیب کا تقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ چیئرمین کا تقرر نہ ہونے کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ انتظامیہ تقرر کرائے بصورت دیگر سنگین نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق سپریم کورٹ کی سخت تنبیہ کے بعد چیئرمین نیب کی تقرری کےلئے حکومت نے اپوزیشن سے رابطے شروع کردیئے ہیں، وزیراعظم نواز شریف نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو حزب اختلاف سے رابطہ کرکے جلد معاملہ طے کرنے کی ہدایت کی، چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالے سے حکومت پر دباﺅ بڑھ گیا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان احتساب کے قومی ادارے (نیب) کے سربراہ کے نام پر عدم اتفاق کے باعث تقرری گزشتہ تین ماہ سے تعطل کا شکار ہے اسی دوران ادارے کی طرف سے نہ تو کسی قسم کی تحقیقات شروع کی گئی ہیں نہ ہی عدالت کو کوئی مقدمہ بھیجا جا سکا۔ وزیراعظم نواز شریف حکومت کے مرکزی ترجمان کے مطابق وزیراعظم نے وفاقی وزیر خزانہ کو حزب اختلاف سے رابطہ کرکے جلد معاملہ طے کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم کی ہدایت پر وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے قومی احتساب بیوروکے چیئرمین کی تعیناتی کےلئے لندن میں موجود قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف خورشید شاہ سے فون پر رابطہ کیا۔ انہوں نے قائد حزب اختلاف کو سپریم کورٹ کے احکامات سے آگاہ کیا اور عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے مطابق نیب کے چیئرمین کی جلد تعیناتی کی ضرورت پر زور دیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو چیئرمین کے نام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے مل بیٹھنا چاہئے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ وہ اس مہینے کی 19 تاریخ کو پاکستان واپس آ رہے ہیں اور اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے کوششیں کریں گے۔ دوسری جانب ایک انٹرویو میں سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے نام کو 21 ستمبر تک حتمی شکل دیدی جائیگی۔ انہوں نے کہاکہ وہ 18 ستمبر کو لندن سے وطن واپس آئیں گے اور چیئرمین نیب کی تقرری کا مسئلہ حل کرنے کیلئے وزیراعظم سے ملاقات کریںگے۔ ابھی اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری سردار لطیف کھوسہ نے امریکی نشریاتی ادارے کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ قومی احتساب بیورو کے سربراہ کی تقرری کا معاملہ پیچیدہ بن گیا ہے، قانون میں لفظ ہے مشاورت، اب صدر حزب اختلاف یا حکومت میں سے کسی کے ساتھ اتفاق رائے کے بعد تقرری کردے۔ مگر اب سپریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کہ مشاورت نتیجہ خیز ہو تو وہ خود جواب دیں۔ میں تو نہیں دے سکتا۔ انہوں نے حکومت پر اس تقرری کے عمل میں تاخیر کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو سابق جسٹس بھگوان داس جیسے شخص کا نام تجویز کیا اب اگر ان کی طرف سے کوئی مثبت اشارہ نہ آئے تو تعطل تو ہوگا۔ لطیف کھوسہ نے چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملے پر اتفاق رائے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ان کی جماعت کے موقف میں لچک پر ان کا کہنا تھا کہ کبھی حکومت کو بھی کہہ دیا جائے، ہم ہی سے کیوں ہمیشہ توقع کی جاتی ہے کہ پسپائی ہمیشہ ہمیں ہی ہو، ہم ہی لچک دکھائیں۔ میڈیا کبھی وزیراعظم سے یہ کہہ دے۔ حالیہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں تاخیر سے بظاہر لگتا ہے کہ بد عنوانی کا خاتمہ موجودہ حکومت کے ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ اگر حکومت جلد تقرری نہیں کرتی تو اس کے نتائج کیلئے تیار ہو جائے۔ دوسری جانب دیگر قانون دانوں کی رائے کے برعکس قانونی ماہر ایس ایم ظفر اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس کی کی رائے کو فیصلہ ہی بنا لیا جائے اگر اتفاق نہیں ہوتا تو کیا حرج ہے؟ کہہ دیں فیصلہ وہی ہوگا جو رائے آئے گی۔ ورنہ آئین میں ترمیم میں تو بہت وقت لگ جائے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ حکومت نیب چیئرمین کی تقرری سے متعلق عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر مکمل عمل کرے گی۔ اس سے پہلے حکومت کی طرف سے سابق جسٹس رحمت جعفری اور خواجہ ظہیر جبکہ حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے سابق جج رانا بھگوان داس اور سردار رضا کے نام تجویز کئے تھے۔ واضح رہے پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں اس وقت کے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے سپریم کورٹ میں نیب چیئرمین کی تقرری کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس تقرری میں ان کی مرضی شامل نہیں جس پر عدالت نے دو مرتبہ ان تقرریوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔