میانوالی کا فوجی اعزاز
میانوالی کا فوجی اعزاز
شہید میجر جنرل ثناءاللہ خان نیازی میرے ضلع میانوالی کا فخر تھے، یہ وہ اعلیٰ لوگ ہیں جو جان دے کے قوم کو زندہ کرتے ہیں، ہماری فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں ہے مگر اس کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ شہید ہونے کی خواہش میں افسروں اور جوانوں میں فرق نہیں ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعداد پاکستان میں فوجی افسران کی ہوتی ہے وہ سالار ہی کیا ہے جو اپنے سپاہیوں کے ساتھ مرنا جینا سانجھا نہ کرے۔ شہید جنرل نیازی سے کہا گیا کہ پروٹوکول اور بہت سی سکیورٹی ساتھ لے کے چلو۔ انہوں نے انکار کر دیا اپنے جوانوں کے ساتھ اگلے مورچوں میں رات گزاری یہ آخری رات زندہ رات بن گئی، رات کا ایک راز ہوتا ہے اور وہ صرف جاگنے والوں ، بہادروں کو ملتا ہے۔ مجھے شہید ڈی ایس پی اکرام اللہ خان نیازی یاد آتے ہیں۔ لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی تھی وہ ظالموں ڈاکوو¿ں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے زخمی ڈی ایس پی نیازی کے لئے میو ہسپتال میں لوگوں کا ہجوم ایک دوسرے سے لپٹ کر روتا تھا ایسا پولیس افسر کم کم دیکھا گیا ہے۔ خلاص خان بھی پولیس افسر تھے داو¿دخیل کے رہنے والے تھے شہید جنرل ثناءاللہ خان نیازی ان کے بیٹے تھے ان کے دوسرے بیٹے رحمت اللہ خان نیازی ڈی آئی جی کوئٹہ ہوئے ہیں۔ کوئٹہ میں ڈی آئی جی فیاض سُنبل بھی دہشت گردی میں شہید ہوئے تھے۔ سنبل میانوالی کے نیازی ہیں بہت اچھے دل و دماغ والے بیورو کریٹ عبداللہ سنبل نے ان کے لئے تفصیل سے بتایا۔ میانوالی نے پاکستان کے لئے ہمیشہ شاندار قربانیاں دی ہیں۔
وارث نیازی کے ساتھ تفصیل سے بات ہوئی وہ میانوالی کے لئے سوچتا ہے اور اپنی زندگی اپنے علاقے کے لئے وقف کئے ہوئے ہے۔ چہلم کی وجہ سے شہید جنرل کے لئے اُن کے رشتہ داروں سے رابطے میں اُسے مشکل پیش آئی۔ مہربان طرز عمل والے ڈی سی او میانوالی میاں ابرار احمد ڈی پی او میانوالی فیصل گلزار شہید کے اہل خانہ کے پاس دیر تک رہے۔ شہید جنرل کے بھائی امین اللہ خان نے بتایا کہ کوئٹہ سے عائلہ ملک کے سابق شوہر یار محمد رند نے بھی جنازے میں شرکت کی۔ میانوالی کی تاریخ میں شہید کا جنازہ بے مثال تھا میانوالی کے بہادر لوگ اپنے نامور اور عظیم بیٹوں کی قدر کرتے ہیں۔ وارث نیازی نے میانوالی کے لوگوں کی طبی معاونت کے لئے ایک تنظیم بیٹر لائف (بہتر زندگی) بنائی ہوئی ہے۔ وہ بہت محنت کرنے والا جوان ہے اس کی ملاقات شہید جنرل ثناءاللہ نیازی سے بھی ہوئی تھی وہ پاکستان کے لئے بالعموم اور میانوالی کے لئے بالخصوص ایک اچھی زندگی کا خواب دیکھتے تھے۔ اچھی زندگی کا خواب دکھانے والے سیاستدان عمران خان نے شہید کے جنارے میں شرکت نہ کی لوگوں نے اس لاپروائی کا بہت بُرا منایا۔
شہید میجر جنرل نیازی سوات میں 17 ڈویژن کے جی او سی تھے۔ کھاریاں میں بھی ان کا ہیڈ کوارٹر تھا وہ اپنے ساتھیوں اور جوانوں میں ایک ہر دلعزیز بہادر جرنیل کے طور پر پسند کئے جاتے تھے۔ وہ پاکستان کے لئے قابل فخر تھے۔ میانوالی کی شان تھے جنرل حمید گل ان کے لئے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ بہت بڑی بڑی باتیں کر رہے تھے، راولپنڈی میں ان کے جنازے میں چودھری نثار اور جنرل کیانی بھی شریک ہوئے۔ جنرل کیانی نے تدبر اور تحمل کے ساتھ ایک معتدل بیان دیا ہے ہم میں چیلنج سے مقابلہ کرنے کی پوری اہلیت ہے مگر ہم امن کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی نظام کے تسلسل کی حمایت کی ہمارے دل دکھ سے بھرے ہوئے ہیں مگر کسی کو سیاسی ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم طالبان کو ایک اور موقع دینا چا ہتے ہیں۔ طالبان کے روپ میں جو دہشت گرد ہیں ان کو الگ کیا جائے۔
جنرل حمید گل نے بہت واضح انداز میں بتایا ۔ کالم نگار اسلم خان نے بھی لکھا ہے کہ یہ کارروائی ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے اس میں سوات کا مولوی فضل اللہ گروپ ملوث ہے اسے افغان صدر کرزئی کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ وہ افغانستان میں افغان حکومت کا مہمان ہے ہم کرزئی کو پاکستان کا مہمان بناتے ہیں۔ یہ لوگ نیٹو کی مدد سے بھارت کے لئے حفاظتی فصیل بنانا چا ہتے ہیں جس میں بُری طرح ناکام ہوں گے۔ افغانستان میں جینوئن حکومت کے آتے ہی یہ مصنوعی سازشی اور کرایہ دار شرپسند خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ جنگ پھیلائی جا رہی ہے ہماری معاشی حالت برباد ہوتی جا رہی ہے ایسے میں ہمیں اپنی بہادر فوج کو سنبھال کے رکھنے کی ضرورت ہے ہر معاملے میں ہر جگہ پاک فوج کو الجھانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔
سوات میں مالم جبہ کے مقام پر ایک فیسٹیول کا اہتمام بھی شہید جنرل ثناءاللہ خان نیازی نے کیا تھا وہ سوات کی معرکہ آرائی میں آگے آگے تھے۔ کالام روڈ بحال کرانے والوں میں شہید جنرل نیازی شامل تھے۔ وہاں سے مولوی فضل اللہ کو بھاگنے پر مجبور کیا گیا وہ افغانستان میں پناہ گزین ہی نہ ہوا مورچہ نشین بھی ہو گیا۔ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں مولوی فضل اللہ شامل ہے۔ امریکہ نیٹو بھارت اور افغانستان سے پوچھنے والا کوئی نہیں کہ مولوی فضل اللہ کو سوات میں شکست دینے پر اتنا زور کیوں دیا گیا تھا اب اس کا زور وزیرستان اور پاکستان میں شرپسندانہ کارروائیوں میں لگ رہا ہے۔
میجر جنرل ثناءاللہ کی شہادت کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے بارودی سرنگ پھٹ گئی، سیٹلائٹ سے باقاعدہ تصویریں بنائی گئیں جنرل کی نقل وحرکت خفیہ رکھی جاتی ہے تو پھر جاسوسی کون کر رہا تھا۔ دہشت گرد کسی ہائی ویلیو ٹارگٹ کے تعاقب میں تھے پاکستان سے باہر طاقتیں چاہتی ہیں کہ میدان جنگ پاکستان ہو۔ کامرہ ایئربیس، کراچی نیول بیس اور جنرل کی شہادت لوکل لوگوں کا کمال نہیں ہے نجانے ہمارا میڈیا کس کے ساتھ ہے۔ ان کی کمٹمنٹ پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ پاک فوج پاکستان کے لئے کتنی اہم ہے اس حقیقت کا اندازہ ان کو ہونا چاہیے ایک ٹیلی فون کال پر کسی کی طرف سے ذمہ داری قبول کر لینا کوئی خبر نہیں ہے۔
دہشت گردوں سے لڑائی پھر طالبان سے امن مذاکرات ہوں اس پیچیدہ صورت حال کا حکمت اور بصیرت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔ سیاسی اور عسکری قیادت مل کر کوئی قابل عمل واضح پروگرام بنائے۔ جنرل حمید گل کے بیٹے نوجوان سیاستدان عبداللہ گل نے بہت گہری بات کی۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ افغان سرحد پر بہادر وزیرستان کے لوگوں کی موجودگی میں کسی فوج کی ضرورت نہیں تو یہ لوگ اصل میں ہماری فوج ہیں۔