کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر تیار ہیں‘ سال لگے گا‘ بشارالاسد....چین قرارداد پر تعمیری کردار ادا کرے : امریکہ
کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر تیار ہیں‘ سال لگے گا‘ بشارالاسد....چین قرارداد پر تعمیری کردار ادا کرے : امریکہ
دمشق‘ ماسکو( آن لائن‘ نیوز ایجنسیاں‘نوائے وقت رپورٹ)شام کے صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیار تلف کرنے سے متعلق امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والے معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ حقائق کے منافی ہے، ان کی حکومت گزشتہ ماہ دمشق میں کیمیائی حملے میں ملوث نہیں۔ امریکی ٹی وی ” فوکس نیوز“ کو انٹرویو میں بشار الاسد نے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کا وعدہ کر تے ہو ئے کہا ہے کہ وہ ہتھیار تلف کرنے کے معاہدے پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر انہیں ہتھیار کسی ملک کے حوالے کرنے کا کہا گیا تو وہ اسکے لئے بھی تیار ہیں۔ انہوں نے کہا ہتھیار تلف کرنے میں ایک برس لگ سکتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ارب ڈالر تک درکار ہو سکتے ہیں۔ صدراسد نے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تردید بھی کی۔ انہوں نے کہا شام میں خانہ جنگی نہیں ہو رہی، اس پر القاعدہ نے حملہ کیا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے ہتھیار امریکہ کے حوالے کرنے کو تیار ہیں تو ان کا کہنا تھا ’اس میں ایک ارب ڈالر درکار ہیں۔ یہ ماحول کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ اگر امریکہ یہ رقم دینا چاہتا ہے اور ان زہریلے مادوں کو امریکہ لے جانے کو راضی ہے تو وہ یہ کیوں نہیں کر لیتے‘بشار الاسد نے امریکی مو¿قف پر بھی شدید تنقید کی۔انہوں نے کہا کہ روس کے برعکس امریکہ نے شام میں قیادت اور حکمرانی میں ملوث ہونے کی کوشش کی۔ انہوں نے صدر اوباما سے بظاہر مخاطب ہو کر کہا کہ ’اپنے عوام کی آواز سنیں۔‘صدر الاسد کے بیان سے قبل ایک سینیئر روسی وزیر کا کہنا تھا کہ شام2014ءکے وسط تک کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کا اپنا وعدہ پورا کر دے گا۔ بشار الاسد نے ملک میں جاری بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کو خانہ جنگی کی صورتحال کا سامنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل جنگ ہے۔ اسد کا اصرار تھا کہ ان کے ملک پر القاعدہ کے حامی ہزاروں غیر ملکی جنگجوو¿ں نے حملہ کیا ہے، ”یہ خانہ جنگی نہیں بلکہ ایک جنگ ہے، ایک نئی قسم کی جنگ۔“ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 80 مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے اسلامی انتہا پسند اور جنگجو گوریلے اس جنگ میں شریک ہیں۔صدر اسد نے اعتراف کیا کہ آغاز میں جب شامی عوام نے حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینا شروع کیا تو اس وقت جہادی طاقتیں اس عمل میں شامل نہیں تھیں تاہم 2012ء میں جب ان شامی باغیوں کو فنڈز ملنا شروع ہوئے تو بیرونی طاقتوں کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ انتہا پسند طاقتیں اکثریت میں آ گئیں۔ ادھر روسی وزیر دفاع سرگئی شوٹگو نے کہا شام کے کیمیائی ہتھیار اس کی سرزمین پر تباہ کرنے کا بھی کوئی منصوبہ نہیں بنا ہے۔ اس حوالے سے فیصلہ کرنا باقی ہے۔ اگر عالمی برادری متفق ہو تو روس کیمیائی ہتھیار تلف کرنے میں تعاون کیلئے تیار ہے۔ پیوٹن نے کہا کہ امید ہے شام ہتھیاروں کے حوالے سے وعدہ پورا کرے گا۔ ترکی نے شامی سرحد پر ایک گیٹ بند کر دیا۔ فرانس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شام میں لڑنے والے جنگجو سکیورٹی رسک بن سکتے ہیں۔ ادھر 2006ءمیں گوانتانا موبے سے رہائی پانے والا مراکشی نژاد محمد العارض شام میں جھڑپ کے دوران مارا گیا۔ اس کا تعلق اسلامی بریگیڈ سے تھا۔ شامی علاقہ جیورائن میں بس سڑک کنارے نصب بم سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی جس کے سبب 19 افراد مارے گئے۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ شامی کیمیائی ہتھیاروں پر سلامتی کونسل میں قرارداد پر مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے۔ کیری نے کہاہے کہ شام کے معاملے پر وقت کم ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اگلے ہفتے شام سے متعلق کارروائی کیلئے تیار ہے۔ شام میں کیمیائی حملے میں سارین گیس استعمال کر کے لوگوں کو ہلا کیا گیا۔ اس موضوع پر بحث نہ کی جائے جس کے بارے میں پہلے سے علم ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کے حالیہ بیانات مثبت ہیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل راسموسین نے کہا ہمارے اتحادی معاہدے پر عملدرآمد میں معاونت کر سکتے ہیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہم شامی حکومت نہیں‘ جنگ کمزوری ہوتی ہے۔ ادھر دوسری جانب شام میں باغی فوجیوں کے دو گرہوں کے درمیان شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب القاعدہ سے منسلک ریاست اسلامی عراقی نامی جہادی گروہ اور مغربی ممالک کی حمایت یافتہ فری سیریئن آرمی کے جنگجوﺅں کے درمیان ترک سرحد کے قریب عزاز نامی قصبے میں تصادم ہوا۔ جہادی گروہوں اور فری سیریلین آرمی کے درمیان یہ لڑائی اب تک کی سب سے بڑی جھڑپوں میں شمار کی جا رہی ہے۔
شام