”زیادتی کیس “ بچی کو سفید گاڑی میں سوار دو سے زائد شناسا افراد نے اغوا کیا
لاہور (نوائے وقت رپورٹ+ نامہ نگار) صوبائی دارالحکومت میں زیادتی کا شکار ہونے والی سنبل کے کزن احمد یار کو سروسز ہسپتال میں چھوڑنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آ گئی۔ سفید گاڑی میں سوار افراد نے وقوعہ کے روز شام 6:45پر احمد یار کو سروسز ہسپتال کے باہر چھوڑا، سکیورٹی گارڈ بچے کے ورثاءکو تلاش کرتا رہا۔ جمعہ کے روز سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق معصوم سنبل اور اس کے کزن احمد کو سفید کار میں گھر کے قریب سے اغوا کیا گیا جس کے بعد سفید شلوار قمیض میں ملبوس شخص احمد کو گود میں اٹھائے ہسپتال کے گیٹ سے اندر داخل ہوا اور ایمرجنسی میں چلا گیا اور 7منٹ تک وہاں موجود رہا اور بچے سے باتیں کرتا رہا۔ اس دوران ہسپتال کے عملے کے افراد اور سکیورٹی گارڈ اس شخص سے ہاتھ ملاتے اور باتیں کرتے دکھائی دیے۔ کچھ دیر بعد وہ شخص بچے کو گود میں دوبارہ اٹھا کر واپس گیٹ کی جانب جاتا ہے اور کچھ دیر بعد پھر گیٹ سے اندر آ کر احمد یار کو پارکنگ ایریا میں چھوڑ کر فرار ہو جاتا ہے۔ جس کے بعد احمد کو سروسز ہسپتال کے سکیورٹی گارڈ نے اٹھا کر ایمرجنسی میں اس کے ورثاءکی تلاش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوا جس کے بعد وہی سکیورٹی گارڈ سات منٹ بعد دوبارہ ایمرجنسی کے باہر لایا اور وہاں کچھ دیر ٹھہرا رہا۔ ادھر متاثرہ بچی کی چوتھی وڈیو فوٹیج بھی گذشتہ روز سامنے آئی جس میں سکیورٹی گارڈ اسے 7بج کر 34منٹ پر گائنی وارڈ کے برآمدے سے لے کر گزر رہا ہے۔ بچی نیم بے ہوش دکھائی دیتی ہے۔ بچی کو حالانکہ 6بج کر 52منٹ پر زیادتی کا ملزم ایم ایس بلاک کے سامنے پارکنگ ایریا کی منڈیر پر بٹھا کر گیا تھا۔ پہلی وڈیو سے بچی کے اس بیان کی تصدیق ہوئی ہے کہ اسے سفید گاڑی میں دو سے زائد افراد نے بٹھایا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اغوا کرنے والوں نے دونوں بچوں سے شناسائی پیدا کر رکھی تھی۔ تبھی تو بچے ان کے ساتھ ورغلانے پر بآسانی چلے گئے۔ سروسز ہسپتال کے باہر احمد یار کو چھوڑنے والا شخص جس طرح بچے اور ہسپتال کے عملے سے مطمئن انداز میں گفتگو کرتا رہا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے بچے سے واقفیت پہلے سے بنا رکھی تھی ورنہ بچے اجنبی جگہ پر اجنبی شخص کے ساتھ ضرور روتے اور چلاتے۔ واضح رہے کہ مغلپورہ کی رہائشی اس بچی سے زیادتی کیس پیچیدہ صورت اختیار کر گیا۔ پولیس افسروں نے ملزم کی شناخت نہ ہونے پر سر جوڑ لئے جبکہ ملزموں کو پکڑنے کے لئے تجربہ کار ریٹائرڈ پولیس افسروں کی خدمات لئے جانے کا امکان ہے۔ 9روز گزر جانے کے بعد بھی تاحال لاہور پولیس کے افسران اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی بچی سے زیادتی کے ملزمان کو گرفتار کرنے میں تاحال ناکام رہے ہےں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹس فرانزک سائنس ایجنسی سے حاصل کرنے کے لئے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ پولیس کی جانب سے ظفر اقبال عرف شاما جو مالشیے کا کام کرتا ہے کو کیس کا مرکزی ملزم گردانا جا رہا ہے۔ تاہم ڈی این اے ٹیسٹ اور پولی گرافی ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث ابھی پولیس حتمی فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔ ہسپتال میں زیرعلاج مذکورہ بچی کی حالت پہلے سے بہتر بیان کی جا رہی ہے۔