ہمارا قومی لباس کیا ہے؟
ہمارا قومی لباس کیا ہے؟
صدر ممنون صاحب نے قومی لباس پہن کر قومی زبان اُردو میں حلف اٹھایا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں انگریزی آتی نہیں ہے ہمارے حکمرانوں کو افسروں نے اس خوف میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں انگریزی زبان میں کسی نہ کسی کے ساتھ رابطہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی کسی دور افتادہ مقام پر بھی چلے جائیں اُردو زبان میں بات کریں تو رابطہ ہو جاتا ہے۔
قائداعظم پتلون، کوٹ پہنتے تھے مگر قومی لباس کے لئے بھی انہوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ وہ انگریزی زبان میں بات کرتے تھے اُردو کے لئے انہیں مشکل پیش آتی تھی مگر ان کی اُردو میں کی گئی کسی تقریر میں انگریزی کا ایک بھی لفظ نہیں ہے آج کل کی اُردو میں عام آدمی بھی کئی لفظ انگریزی کے بولتا ہے جو مناسب نہیں ہے۔ اب عورتوں نے بھی پتلون وغیرہ پہننا شروع کر دی ہے یہاں کوئی ان کو زبردستی نہیں روکتا نہ قانون کے ذریعے کوئی پابندی لگائی گئی ہے مگر یہ کیا ہے کہ یورپ کے کئی ملکوں میں سکارف پہننے والی چادر لینے والی اور کسی طرح کے حجاب میں عورت پر پابندی ہے، کئی عورتوں نے اس پابندی کے خلاف احتجاج کیا ہے کوئی عورت حجاب کے بغیر ہو تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ایسی کوئی پابندی پاکستان میں نہیں ہے مگر عورت معاشرتی آداب، اپنے کلچر ، اسلامی روایات، وقار اور شرم وحیا کے ساتھ گھر سے باہر نکلے تو یہ اچھا لگتا ہے۔ میں حضرت امام خمینی کی پہلی برسی پر ایران گیا تھا تو وہاں چادروں میں ملبوس عورتوں کے لئے میرے دل میں قدرومنزلت پیدا ہوئی تھی اس زمانے میں برقعے کا رواج کم سے کم ہو گیا ہے۔ وہ عورتیں جو چادر نہیں لیتیں اُن کے لئے کوئی قدغن نہیں ہے مگر عورت اور مرد میں جو فرق فطرت نے پیدا کر دیا ہے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
اس طرح معاملات زندگی اور مصروفیات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے پروفیسر ڈاکٹر امت الازریں کو دیکھا۔ وہ پورے حجاب میں ہوتی ہیں بہت محنت اور مہارت سے فرائض سرانجام دیتی ہیں وہ علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ہیڈ آف گائنی ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ کلاسز بھی پڑھاتی ہیں اور انتظامی امور بھی چلاتی ہیں۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج کے ساتھ جناح ہسپتال میں بھی گائنی کا شعبہ اُن کی نگرانی میں چلتا ہے۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے اندر بہت ہجوم ہوتا ہے اور لیبر روم میں ہجوم ہوتا ہے یہاں ہر روز بڑی تعداد میں بچے جنم لیتے ہیں۔ جناح ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اعجاز شیخ کے ساتھ ایک میٹنگ میں موجود تھا وہاں کچھ اور لیڈی ڈاکٹرز بھی تھیں وہ حجاب میں نہ تھیں۔ ڈاکٹر امت الازریں حجاب میں تھیں کارکردگی کے حوالے سے ڈاکٹر امت الازریں زیادہ مستعد اور مہربان ہیں۔ ایم ایس ڈاکٹر اعجاز شیخ نے اپنے دروازے سب کے لئے کھول رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں اظہر شاہ بھی ان کی معاونت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر امت الازریں اپنی پوری ٹیم کے ساتھ سب کے لئے حاضری دیتی ہیں اُن کی ساتھی ڈاکٹرز ان کی عزت کرتی ہیں اورمحبت بھی کرتی ہیں۔
میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ پوی طرح اپنے فرائض کی انجام دہی میں حجاب بالکل مانع نہیں ہے۔ حجاب کے بغیر بھی عورتوں کا پورا حق ہے کہ وہ وقار کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیں۔ ہسپتالوں میں غریب اور اثرورسوخ والے لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ جناح ہسپتال میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے لیبر روم میں زیادہ بے چینی ہوتی ہے مگر یہاں ایک اچھا ماحول دکھائی دیتا ہے۔
مجھے ایک بچی کا ذکر کرنا ہے۔ میں جس دفتر میں ہوں وہ بھی وہاں ہے، وہ دفتر میں آ کے حجاب اتار دیتی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے بہت اچھی بات کی کہ دفترمیرے لئے گھر جیسا ہے یہاں حجاب کی کیا ضرورت ہے۔ وہ بہت توجہ اور محنت کے ساتھ اپنے ساتھی لوگوں کے ساتھ کام کرتی ہے اس کا نام آمنہ ہے وہ ایک یونیورسٹی میں پڑھتی بھی ہے شام کو یہاں کام کرتی ہے میں اس بیٹی سے مل کر خوش ہوا بالخصوص اس کے خیالات اور طرز عمل نے مجھے بہت متاثر کیا اس طرح کے رویے والی بیٹیاں معاشرے کے لئے ایک مثال بن سکتی ہیں۔
میں نے اس کالم کے آغاز میں صدر ممنون حسین کا ذکر کیا تھا۔ قومی لباس میں اُن کے حلف لینے کا عمل مجھے پسند آیا وہ بہت سادہ آدمی لگتے ہیں، آسودگی صرف سادگی میں ہے اس سے پہلے نوازشریف نے اپنی پارٹی کی طرف سے محترم رفیق تارڑ کو صدارت کے لئے منتخب کرایا تھا۔ تارڑ صاحب اپنی شخصیت کے وقار اور اعتبار کے لئے بہت قابل قدر آدمی ہیں ۔ ممنون صاحب کے ساتھ سٹیج پر صدر زرداری بھی موجود تھے۔ وہ صدر ممنون صاحب کے حلف لینے تک صدر تھے۔ وہ انگریزی لباس میں تھے انہوں نے حلف بھی اسی لباس میں لیا تھا اس میں کوئی حرج نہیں ہے مگر حلف لیتے وقت وہ قومی لباس میں ہوتے تو اچھا لگتا۔ ہم بھی انہیں شلوار قمیض میں دیکھ لیتے، نوازشریف ہمیشہ شلوار قمیض پہنتے تھے عموماً نیلے رنگ کی شلوار قمیض انہیں زیادہ اچھی لگتی ہے۔ نیلے رنگ کو نوازشریف خوش رنگ بھی کہتے ہیں اس لباس پر خوبصورت واسکٹ بھی ہوتی ہے واسکٹ شیروانی کی چھوٹی بہن ہے۔ نوازشریف کی قیادت میں یہ سیاستدانوں کا لباس بنتا جا رہا تھا مگر اب انہوں نے کوٹ پتلون پہننا شروع کر دی ہے۔ کوٹ پتلون بھی انہیں اچھی لگتی ہے مگر شلوار قمیض زیادہ اچھی لگتی ہے۔ وہ دونوں لباس ساتھ ساتھ چلائیں شاید وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ ان کا سٹائل اپنانے میں لوگوں کو آسانی ہوگی عورتیں زیادہ پریشان ہیں کہ ہمارا قومی لباس کیا ہے؟ اس کے لئے میں آپ کی آراءکا انتظار کروں گا۔