طالبان گروپوں میں اختلافات کے باعث مذاکرات شروع نہیں ہو رہے: جاوید پراچہ
لاہور (اشرف ممتاز/ نیشن رپورٹ) سابق ایم این اے اور مذاکرات کیلئے کردار ادا کرنے والے رہنما جاوید ابراہیم پراچہ نے کہا ہے کہ طالبان کے گروپوں کے درمیان اختلافات اور بعض بااثر قوتوں کی طرف سے امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کی وجہ سے حکومت اور طالبان کے درمیان ابھی تک مذاکرات شروع نہیں ہوسکے۔ ’’دی نیشن‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملاعمر کا گروپ مذاکرات کا زبردست حامی ہے اور چاہتا ہے کہ عوام اور فوجیوں پر حملے نہ کئے جائیں جبکہ کئی دوسرے گروپ ہیں جو بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے اس ملک کو ہر قیمت پر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ان مذاکرات میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ ان اندرونی اختلافات کے باعث طالبان شوریٰ مذاکرات کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے صورتحال کل یا پرسوں تک واضح ہوجائیگی۔ جاوید ابراہیم پراچہ نے مزید کہا کہ مذاکرات کیلئے جو اخلاص چاہئے وہ حکومت اور طالبان دونوں ہی میں کم نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض عناصر لشکر جھنگوی کو پسند نہیں کرتے اور بعض سپاہ صحابہ کے خلاف ہیں۔ یہ بھی صورتحال خراب کررہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ وہ حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بیٹھا کر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے بیان پر طالبان خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ عناصر جو پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے اور قومی پرچم کا احترام نہیں کرتے، ان سے مذاکرات وقت کا ضیاع ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے تمام گروپوں سے مذاکرات ہوں گے کیونکہ سب کی اپنی اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ قاری ضیاء الرحمن، مولوی فضل الرحمن اور مولوی فقیر محمد اپنے اپنے علاقوں میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ان سے بھی مذاکرات کرنا ہوں گے۔ جب ان کی توجہ مولانا سمیع الحق کے اس بیان کی جانب مبذول کرائی گئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی مسلط کردہ جنگ سے نکل جائے اور ملک میں شرعی قوانین لاگو کئے جائیں تو انہوں نے کہا کہ ایسی باتیں تو ہم کافی عرصہ سے سن رہے ہیں لیکن طالبان کے اصل مطالبات ا س وقت سامنے آئیں گے جب وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے۔ جب ان کی توجہ ترجمان تحریک طالبان کے اس بیان کی جانب دلائی گئی جس میں اس نے کہا تھا کہ فوج پر حملے جاری رہیں گے تو انہوں نے کہا کہ جب تک مذاکرات شروع نہیں ہوتے، ایسے بیانات کو قابل فہم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح فوج بھی آپریشن جاری رکھنے میں حق بجانب ہے۔ دریں اثناء میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید ابراہیم پراچہ نے کہا کہ حکیم اﷲ محسود کے ساتھ میری ٹیلیفون پر گفتگو نہیں ہوئی بلکہ کچھ لوگوں نے ان کا نام استعمال کرکے میرے ساتھ رابطہ کیا۔ جاوید ابراہیم پراچہ نے بتایا کہ وہ حساس حالات میں اڈیالہ جیل حکومت کی اجازت سے گئے ہیں اور وہاں موجودطالبان کی لسٹ حاصل کی۔ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ طالبان کے کچھ گروپ مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن وہ اس مذاکراتی عمل میں میری موجودگی لازمی سمجھتے ہیں لیکن میری اپنی خواہش اب اس میں شامل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب حکیم اﷲ محسود سمیت کسی بھی طالبان گروپ کے کمانڈر نے رابطہ کیا تو میں تحریری ثبوت اور دستخط کے بغیر اعتماد نہیں کرونگا۔