مسعود جنجوعہ کیس: مشرف سمیت 12 حاضر سروس ریٹائرڈ فوجی افسروں کو نوٹس‘ بیان حلفی طلب
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + آئی این پی + ثناءنیوز) سپریم کورٹ نے لاپتہ مسعود جنجوعہ کیس میں سابق صدر پرویز مشرف سمیت 12 حاضر اور ریٹائر فوجی افسروں کو نوٹس جاری کر دئیے‘ 2 ہفتوں کے اندر بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کر دی، جن افراد کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں ان میں سابق صدر پرویز مشرف، حساس ادارے کے افسروں لیفٹیننٹ جنرل (ر) نصرت نعیم، لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفقات احمد، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم تاج، سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم، بریگیڈیئر (ر) منصور سعید شیخ، کرنل حبیب اللہ، کرنل جہانگیر اختر، سابق سیکرٹری دفاع سید اطہر علی عباس، کرائسس مینجمنٹ کے افسروں بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال لودھی، بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال چیمہ اور سابق سیکرٹری داخلہ کمال شاہ شامل ہیں۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو آمنہ مسعود جنجوعہ نے اپنے مسعود جنجوعہ کی بازیابی کے حوالے سے 12 افراد کی فہرست پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد میں سے کچھ افراد 2005ءسے 2013ءتک مسعود جنجوعہ کے متعلق لاپتہ افراد کمشن کے سامنے بیانات دیئے۔اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا کہ جنرل (ر) نصرت نعیم نے بیان حلفی جمع کرا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق مسعود جنجوعہ کو قبائلی علاقے میں طالبان نے قتل کر دیا تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسعود جنجوعہ قتل کیے جا چکے ہیں تو ان کی بازیابی کے لئے کوششیں کر نے والی ان کی بیوی آمنہ مسعود کو سکون حاصل ہو گا اگر کسی نے بیان حلفی دیا ہے تو جرح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ عدالت نے آمنہ مسعود جنجوعہ کی جانب سے حاضر سروس و ریٹائرڈ عسکری و خفیہ اداروں کے افسروں سے بیان حلفی لینے سے متعلق درخواست جمع کرائے جانے پر درخواست میں دیئے گئے 12 افراد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ دوران سماعت مسعود جنجوعہ کی اہلیہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے 5 مزید افراد کے نام جمع کرائے۔ دو رکنی بنچ نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ اگر ان کے شوہر فوت ہو گئے ہیں یا مار دیئے گئے ہیں تو اس حوالے سے کم از کم کوئی ثبوت تو ہونے چاہئیں اگر ان افسروں پر جرح ہو جائے تو اس سے بھی حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ عدالت جرح کی اجازت دے اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ یہ درست ہے کہ مسعود جنجوعہ کے بارے میں حقیقت کا پتہ چل جائے ۔ چاہے ان کی فوتیدگی کے حوالے سے ہو کم از کم اس سے گھر والوں کو سکون تو آجائے گا۔ افسروں پر جرح کی جا سکتی ہے ہم تو خود حقائق تک پہنچنا چاہتے ہیں، عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر سے پوچھا کہ جن 7 سے زائد افسروں کو نوٹس جاری کئے تھے اور ان سے بیانات حلفی طلب کئے تھے ۔ کیا وہ جمع کرا دیئے گئے ہیں اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ بیانات حلفی جمع نہیں ہو سکے اس پر عدالت نے مزید وقت دے دیا آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے شوہر کو لاپتہ کرنے میں کچھ دیگر افراد بھی مبینہ طور پر ملوث ہیں ان لوگوں میں سابق صدر پرویز مشرف، سابق سیکرٹری داخلہ، دفاع، کرائسس مینجمنٹ سیل کے افسر شامل ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نصرت نعیم نے حکومتی سطح پر ان کے خاوند کے حوالے سے بیان دیا ہے یہ بیان نہ تو عدالتی کمشن کے روبرو دیا گیا ہے نہ ہی سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا یہ بیان وزارت داخلہ نے حکومتی سطح پر جمع کرایا تھا جس کو وہ تسلیم نہیں کرتیں کیونکہ جنرل شفقات نے فون پر کہا تھا کہ میرے شوہر زندہ ہیں، حکومت اور دیگر اداروں کے افسروں کے بیانات میں تضاد ہے اس لئے جرح کی جانی چاہئے۔ مقدمہ کی سماعت دو ہفتے کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ سپریم کورٹ نے آزاد کشمیر کی رہائشی خاتون عابدہ کے لاپتہ شوہر توصیف آصف کی بازیابی کے حوالے سے مقدمے کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو ہدایت کی کہ توصیف آصف کے لاپتہ ہونے سے متعلق حقائق پر مبنی کو رپورٹ پیش کی جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور شیخ عظمت پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ یاد رہے توصیف آصف نومبر 2011ءمیں کشمیر سے لاپتہ ہو گئے تھے جس کے خلاف اس کی اہلیہ عابدہ خاتون نے تھانہ صادق آباد راولپنڈی میں رپورٹ درج کرائی تھی کہ اس کے شوہر کو میجر حیدر نے اغوا کیا ہے اور وہ اب بھی اس کی حراست میں ہے۔ اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیصل ملک نے عدالت کو بتایا کہ توصیف آصف کے لاپتہ ہونے کے حقائق تک پہنچنے اور ان کی بازیابی کے لئے ڈی آئی جی عبدالقادر قیوم کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ جس نے اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے اور توقع ہے ٹیم حقائق تک پہنچ جائے گی تاہم ٹیم کو آگے بڑھنے کے لئے مزید مہلت دی جائے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتہ نوجوان کے مطابق توصیف آصف جس کمرے میں رہتا تھا چودہ ماہ قبل اسے لاک کر کے چلا گیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے عدالت میں موجود تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو ہدایت کی کہ تحقیقات کر کے حقائق کو سامنے لانا ان کی ذمہ داری ہے۔ عدالت چاہتی ہے کہ وقت ضائع کئے بغیر اصل صورتحال کا پتہ چلایا جا سکے۔ عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ مشترکہ ٹیم 13 ستمبر کو بنائی گئی ہے جو آگے بڑھنے کے لئے معلومات تک رسائی کی خواہاں ہے۔ عدالت ٹیم کو کچھ مہلت دے۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے اس لئے سینئر افسر کو طلب کیا تھا کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ کام کر کے اصل حقائق سامنے لائے، یہ دونوں فریقوں کے ساتھ عدالت کے بھی مفاد میں ہے اس موقع پر عابدہ خاتون کے وکیل کرنل ریٹائر انعام الرحمن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انسپکٹر تنویر وڑائچ نے اس کیس کی ابتدائی تفتیش کر کے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی تھی، مشترکہ ٹیم چاہے تو اس سے بھی استفادہ کر سکتی ہے، جس پر عدالت نے ٹیم کے سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ پیش رفت کے لئے اس رپورٹ کا بھی جائزہ لیں۔