’’پاکستانی سیاست اور طاقت‘‘
’’ڈاکٹر مبشر حسن کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ ہم نے دوسری گاڑی بھیج دی ہے‘‘ زبیر شیخ کے یہ الفاظ ٹیک کلب میں بیٹھے لوگوں پر بجلی بن کر گرے۔ اس وقت تقریب کے مہمان خاص غلام مصطفی کھر اپنی فیملی کے ساتھ ہال میں آچکے تھے۔ تقریب کے نقیب نے مزید کہا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ ڈاکٹر صاحب پانچ سات منٹ میں پہنچ جائیں گے۔ سنگل پسلی ڈاکٹر صاحب تشریف لائے تووہ ہشاش بشاش تھے۔ اس عمر (پیدائش 22 جنوری 1922ئ) میں ہوا کا تھپیڑا لگ جائے تو اسے بھی ایکسیڈنٹ ہی کہا جاتا ہے شاید یہی انکے ساتھ بھی ہوا۔ ڈاکٹر صاحب سے انتظامیہ نے خطبہ استقبالیہ ’’ کھر کا تعارف‘‘ کے نام پر پہلے مقرر کے طور پر ہی دلوالیا البتہ وہ کھر صاحب کی تقریر کے دوران اور بعد بھی مائیک کے سامنے آتے جاتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کا روسٹرم پر آتے ہی ٹمپرامنٹ لوز تھا۔ جوں جوں تقریب کی کارروائی آگے بڑھی بڑے احترام کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ کئی ’’پیچ‘‘ بھی ڈھیلے محسوس ہوئے۔ البتہ مجموعی طور پر ان کی تقریر معلوماتی، اثر انگیز اور حب الوطنی کے جذبے سے معمور تھی۔ وہ کرپشن اور بیڈ گورننس سے کسی بھی درد دل رکھنے والے پاکستانی سے زیادہ پریشان تھے۔ انہوں نے اس امریکی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا کہ صرف 415 پاکستانیوں کے سوئس بنکوں میں 83 ارب ڈالر یعنی 83 کھرب روپے پڑے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے دوست کھر کا تعارف زبردست طریقے سے کرایا اور کہا کہ اگر کھر نہ ہوتے تو ذوالفقار علی بھٹو صدر نہ بن سکتے۔
قیوم نظامی صاحب ٹیک کلب کے روح رواں سمجھے جاتے ہیں۔ آج ان کے پرانے ساتھی آئے تو وہ غائب تھے، شاید ان کے ساتھ نہ بنتی ہو۔ انتظامیہ نے تقریب کی کارروائی شروع ہوتے ہی سوالات کے حوالے سے حاضرین سے درخواست کی کہ ذاتیات کے حوالے سے سوال نہ کیا جائے تاہم غلام مصطفی کھر نے کہا کہ حاضرین سیاست سے لیکر میری ذاتی زندگی پر جو چاہیں سوال کریں۔ ایک بزرگ نے جو ڈاکٹر مبشر کے ہم عصر لگتے تھے انہوں نے تقریب کے باقاعدہ اختتام کے بعد جب حاضرین چائے اور’’ ایک ایک ‘‘بسکٹ کیلئے اٹھ رہے تھے، روسٹرم پر آ کر تمہید باندھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’میرا کہتی ہے کہ اس کا باپ غلام مصطفی کھر ہے۔‘‘ کھر صاحب جواب کیلئے روسٹرم پر آیا چاہتے تھے کہ انتظامیہ نے اس سوال کو مسترد کر دیا۔ کھر صاحب پھر بھی آگے بڑھے کہ ڈاکٹر مبشر نے ’’دبکا مارا‘‘ ایسے فضول سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
کھر صاحب کی تقریر ذرا طویل تھی۔ ایسے میں انٹ شنٹ بھی لگ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’سیاستدان فوج بیوروکریسی اور عدلیہ مل کر ملک کو بچا سکتے ہیں۔ فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ کو سیاستدانوں کی قیادت میں متحد ہونا ہو گا‘‘ ۔۔۔ عدلیہ کیوں فوج اور بیوروکریسی کے ساتھ بیٹھے۔ کیا وہ فیصلے ان سے پوچھ کر کرے؟ فوج اور بیوروکریسی حکومت کی چھتری تلے تو متحد ہوتے ہیں تو حرج نہیں۔ عدلیہ اپنا کردار ادا کرے۔ جس طرح آج آزاد عدلیہ ہے اسے کسی کی چھتری اور سپروژن کی ضرورت نہیں بلکہ فوج اور خصوصی طور پر بیوروکریسی اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کرے تو تمام دلدّر دور ہو سکتے ہیں۔
کھر صاحب نے مہنگائی کے خاتمے اکسیر نسخہ بتایا کہ سیاست سستی تو ہر چیز سستی ہو سکتی ہے۔ ایک امیدوار انتخابی مہم پر ایک کروڑ خرچ کرتا ہے۔ کئی پانچ کروڑ بھی کر دیتے ہیں۔ وہ حکومت میں آ کر کم از کم تین گنا اکٹھے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا سسٹم ہو کہ عام آدمی بھی الیکشن لڑ سکے۔ انتخابی اخراجات نہ ہونے کے برابر ہوں یعنی سیاست میں مہنگائی ختم ہو جائے عام آدمی کو بھی مہنگائی سے نجات مل سکتی ہے۔
کھر صاحب ملکی حالات پر دل گرفتہ ہیں۔ وہ بھٹو کے دور میں گورنر پنجاب رہے۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کے دور کو کالاباغ دور سے مشابہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ کالاباغ اور ان جیسا گورنر پہلے آیا نہ کبھی آئندہ آئے گا۔ وہ بینظیر بھٹو کے دور میں وزیر پانی و بجلی رہے۔ اس دور میں بھی حکومتی سطح پر کرپشن کے چرچے تھے۔
بینظیر بھٹو کی دو بار حکومت انہی الزامات کے باعث ہی توڑی گئی۔ کھر صاحب نے تقریب میں سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے کرپٹ ذہنیت کے حوالے سے بتایا کہ ان دنوں امریکہ سے ایک وفد پاکستان میں بجلی کے معاہدوں کیلئے آیا تھا۔ اس میں ایک ہندو رکن کانگریس بھی تھا۔ اس نے مجھ سے الگ ملنے کی خواہش کی۔ میں نے اس کی بات سنی۔ وہ پاکستان میں کرپشن پر بات کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا کرپشن بڑے ممالک میں بھی ہے، بھارت میں بھی کم نہیں۔ پاکستان میں یہ کسی اور ہی شکل میں ہے۔ امریکی وفد بھارت گیا دس دن تک ان کے سیاستدان اور بیوروکریٹ لڑتے رہے کہ بجلی کی قیمت کم کرو۔ ہم کم از کم سطح پر قیمت لے آئے تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے کمشن کی بات کرو جس پر ہم ششدر رہ گئے۔ ان کا جواب تھا ہم اپنے ملک کے مفاد کو زک نہیں پہنچا سکتے۔ کمشن بھی ضرور لیں گے اور آپ سے لیں گے۔ ادھر پاکستان میں سات دن سے ہم بیٹھے ہیں کسی نے بجلی کی قیمت کم کرنے کی بات نہیں کی سب کہتے ہیں کہ ہمارا کمیشن بڑھائو۔
تقریب کے اختتام پر بہت سے سوالات ہوئے۔ ایک خاتون نے پوچھا کہ آپ کسی پارٹی میں مستقل مزاجی سے نہیں رہے۔ اس پر کھر صاحب نے یہ واقعہ دہرایا کہ میں نے وزیر بجلی و پانی کی حیثیت سے محترمہ سے ملاقات کیلئے وقت مانگا انہوں نے نوازش کی، اپنے گھر لنچ پر بلا لیا۔ میں نے کہا کہ آج کل کابینہ میں کرپشن کے بڑے تذکرے ہیں۔ زرداری صاحب ہم سے بھی پیسے مانگتے ہیں۔ ہم آپ کی بات مانیں یا آصف صاحب کی؟ اس پر بینظیر بھٹو نے کہا آصف صاحب کی!!! کھر کا حاضرین سے سوال تھا کہ کیا میں ان لوگوں کے ساتھ چل سکتا تھا؟