• news
  • image

کالا باغ ڈیم پر ریفرنڈم کرایا جائے‘ بروقت بن جاتا تو بجلی 9 پیسے یونٹ ملتی : شمس الملک

کالا باغ ڈیم پر ریفرنڈم کرایا جائے‘ بروقت بن جاتا تو بجلی 9 پیسے یونٹ ملتی : شمس الملک

لاہور (نیوز رپورٹر+ کامرس رپورٹر) سابق وزیر اعلی خیبرپی کے وسابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے کہا ہے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لئے خیبر پی کے میں ریفرنڈم کرایاجائے اور یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ خیبر پی کے کی عوام کالاباغ ڈیم بنانے کے خلاف ہیں۔ پاکستان میں74فیصد پانی سیلاب کے دنوں میں جب کہ 26فیصد باقی دنوں میں آتا ہے، جس طرح بنک کسی شخص کی اچھے دنوں کی کمائی کو محفوظ بنا لیتا ہے اور وہ برے وقت میں کام آتا ہے اسی طرح ڈیم بنک کا کام دیتے ہیں اور سیلابی دنوں میں ذخیرہ کیا گیا پانی سوکھے کے موسم میں قومی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ وہ لاہور پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس میں صحافیوں سے گفتگوکر رہے تھے۔ شمس الملک نے کہا کہ تحقیق کے مطابق صرف پانچ فیصد ووٹ حاصل کرکے حکومت بنانے والی پارٹی اگر ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہے تو اس کا واحد حل ریفرنڈم ہے کیونکہ انگریز حکومت نے انڈین انڈیپنڈنٹ ایکٹ کے تحت بھارت کو آزادی دی تو خیبر پی کے میں ریفرنڈم کرایا گیا جس کے بعد یہ صوبہ پاکستان میں شامل ہوا اور اسی طرح ریفرنڈم کے ذریعے کالاباغ ڈیم کی تعمیرکو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ نصف صدی قبل ہی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے منصوبہ بندی کر کے توانائی کے مسائل پر قابو پانے کے لئے ڈیم تعمیر کر لئے تھے لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ ہم مشکلات کا شکار ہو کر بھی ابھی تک کشمکش میں مبتلا ہیں کہ ڈیم بنائے جائیں یا نہیں۔ جو لوگ یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ ڈوب جائے گا اور پشاورکی سڑکوں پر پانی بہے گا وہ جھوٹ بولتے ہیں اور حقیقت حال سے واقف نہیں ہیں اور انہوں نے تو شاید کبھی ڈیم بھی نہیں دیکھے ہوں گے، قدرت بہترین فیصلہ کرتی ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ خیبر پی کے میں سب سے بڑا سیلاب 1929 میں آیا لیکن جو تباہی 2008 کے سیلاب میں آئی وہ 1929 کے سیلاب میں بھی نہیں دیکھی گئی تو کیا اس وقت یا اب یہ سب کالاباغ ڈیم کی وجہ سے ہوا۔ کالاباغ ڈیم کا سب سے زیادہ فائدہ خیبر پی کے کو ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ساری دنیا میں توانائی، خوراک اور تازہ پانی کا مسئلہ درپیش ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہونا ہے تو ہمیں ہرحال میں ڈیم کی تعمیر کرنا ہو گی تاکہ زراعت میں خودکفیل ہوسکیں، بجلی کے مسائل پر قابو پایا جاسکے اور عوام کو تازہ پانی اور خوراک مہیا کرسکیں۔ شمس الملک نے کہا کہ کالا باغ ڈیم نہ بننے کے باعث ملک کا ہر شخص مہنگی بجلی کی ادائیگی کی مد میں ایک ہزار روپے سالانہ ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے اس امر کا اظہار گذشتہ روز وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت پاکستان کے ریجنل دفتر میں اپنے خطاب کے دوران کیا۔ تقریب کی صدارت ایف پی سی سی آئی کے ریجنل چیئرمین اظہر سعید بٹ نے کی۔ اس موقع پر انجینئر سلیمان نجیب اور انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرز پاکستان لاہور سنیٹر سید خالد سجاد سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔ واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کو اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق 1992ءتک مکمل ہو جانا چاہئے تھا اگر یہ منصوبہ بروقت مکمل ہو جاتا تو بجلی فی یونٹ 9پیسے میں دستیاب ہوتی۔ 20سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اگر یہ منصوبہ ستمبر 2013ءمیں مکمل ہوتا تو سستی ترین بجلی 1.54روپے فی یونٹ دستیاب ہوتی جبکہ اس کے برعکس فرنس آئل سے تیار ہونے والی بجلی 16.5روپے فی یونٹ میں مل رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان تیل کی خریداری اور بجلی کی تیاری کی مد میں 180ارب روپے سالانہ خرچ کر رہا ہے۔ جس میں سے پنجاب 95ارب روپے سندھ 35ارب روپے، خیبر پی کے 22ارب روپے اور بلوچستان 8ارب روپے ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک نے بھی کہا کہ 80کی دہائی کے آخر میں پاکستان میں ایک نیا ڈیم ہونا چاہئے اور وہ ڈیم کالا باغ ڈیم ہوگا۔ یہ پنجاب کا پراجیکٹ نہیں تھا اس ڈیم کو بنانے کے لئے ورلڈ بینک نے کہا تھا۔ پاکستان وسائل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان خود مختار ہو۔ کالا باغ ڈیم کو ہم زراعت کے لئے استعمال کر سکتے ہیں جبکہ منگلا اور تربیلا ڈیم کو بجلی بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اضافی 600میگا واٹ بجلی میسر آ سکتی ہے۔
شمس الملک

epaper

ای پیپر-دی نیشن