اوباما کا فون کیوں سنا، تہران میں ایرانی صدر کی کار پر جوتا، انڈے پھینکے گئے
اوباما کا فون کیوں سنا، تہران میں ایرانی صدر کی کار پر جوتا، انڈے پھینکے گئے
تہران (اے این این+اے ایف پی) ایران کے صدر حسن روحانی کی جانب سے اقوام متحدہ میں ملک کے ایٹمی پروگرام پرموقف میں لچک دکھانے اور امریکی صدر اوباما کا ٹیلیفون سننے پر ایرانی عوام میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے جس کا مظاہرہ نیویارک سے تہران پہنچنے پر ایرانی صدر کی کار پر جوتا اور انڈے پھینک کر کیا گیا اور امریکہ، اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ ادھر ایرانی صدرنے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر اوباما نے اپنی ٹیلیفونک گفتگو میں ایران کے ایٹمی حقوق کو تسلیم کرلیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق صدر حسن روحانی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد جب گزشتہ روز وطن واپس پہنچے تو قدامت پسندوں نے ان کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کئے اورامریکہ مردہ باد کے نعرے لگائے جبکہ مہر آباد ائیرپورٹ موجود ہاتھوں میں جوتے اٹھائے افراد نے ان کیخلاف نعرے بازی کی۔ اس دوران صدر حسن روحانی کی گاڑی پر بھی جوتا اور انڈے پھینکے تاہم صدرروحانی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ اس موقع پر صدر حسن روحانی کے حامی بھی ائرپورٹ پر موجود تھے جنہوں نے ان کے حق میں نعرے بازی کی۔ صدر روحانی کے استقبال کیلئے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر علی اکبر ولایتی اور کابینہ کے ارکان بھی ائرپورٹ پر موجود تھے۔ واضح رہے کہ ایرانی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تہران اپنے ایٹمی پروگرام پر نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ اس دورے میں صدر روحانی سے فون پر امریکی صدر اوباما نے گفتگو کی جو کہ گزشتہ 34 سالوں میں دونوں ممالک میں اعلی ترین سطح پر پہلا رابطہ تھا۔ دریں اثناءمہر آباد ائیرپورٹ پرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صدرنے کہا کہ امریکی صدر اوباما نے اپنی ٹیلیفونک گفتگو میں ایران کے ایٹمی حقوق کو تسلیم کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر اوباما نے جو ٹیلیفونک رابطہ کیا اس میں بیشتر ایٹمی مسائل پر تبادلہ خیال ہوا اور میں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کا ایٹمی معاملہ نہ صرف ملت ایران کے حقوق سے متعلق ہے بلکہ ایران کی ترقی اور ایران کا قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق ائر پورٹ کے باہر صدر روحانی کیخلاف مظاہرہ کرنیوالوں کی تعداد 60کے لگ بھگ تھی جبکہ ان کے حامیوں کی تعداد دو سو سے تین سو کے درمیان تھی جنہیں نے۔ ”شکریہ روحانی“ کے نعرے لگائے۔ حامیوں اور مخالفین کو پولیس نے الگ الگ کر رکھا تھا۔
ایرانی صدر