• news

پنج پیارے ....

میاں نواز شریف کے پنج پیارے بھی بڑے مشہور ہوئے گو پنج پیاروں کی اصطلاح سرداروں سے لی گئی ہے۔ گوروگوبند سنگھ نے .... پنج پیارے مقرر کئے لیکن اکبر کے نورتنوں کی طرح یہ لوگ بھی ایک اعتبار سے میاں صاحب کے درباری تھے۔ چونکہ وقتاً فوقتاً یہ بدلتے رہتے ہیں اس لئے ان کی تعداد بھی مجموعی طور پر نو کے قریب ہے۔ جب میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انکے پانچ ویزروں کو اس القاب سے نوازا گیا۔ بہاولنگر کے ستار لالیکا، لودھراں کے صدیق خان کانجو، پنڈی کے شیخ رشید اور چودھری نثار اور خوشاب کے ملک نعیم، گو راجہ بیربل، ٹوڈرمل کی طرح یہ لوگ انٹلکچوئل تو نہ تھے لیکن باس کو شیشے میں اتارنے کا فن جانتے تھے۔ سیاستدانوں اور سرکاری اہلکاروں کو گرانے، آگے بڑھانے، اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں ماہر تھے۔ انہوں نے میاں صاحب کے اردگرد ایک ایسا حصار کھڑا کر دیا تھا جس کے اندر رہ کر وہ نہ تو ٹھیک طرح سے باہر دیکھ سکتے تھے اور نہ پوری طرح باہر والوں کی آواز سن سکتے تھے۔ اگر اتفاق میں شرکت ہے تو یہ اپنی حد تک متفق و متحد تھے۔ تمام اہم وزارتیں انکے پاس تھیں۔ باقی وزراءاور ارکان اسمبلی ان کا التفات اور خوشنودی حاصل کرنے میں کوشاں رہتے۔ ان کا رنگ لیڈر عبدالستار لالیکا تھا۔ اس کی میاں نواز شریف سے قربت کے قصے مشہور تھے۔ بہاولپور ڈویژن میں اس کی مرضی کے بغیر کسی کو پارٹی ٹکٹ نہیں مل سکتا تھا۔ اسکے سسرال رحیم یار خان میں تھے اس لئے انہیں مرعوب کرنے اکثر آتا جاتا رہتا۔ ایک مرتبہ ملا تو کچھ ناراض لگتا تھا وجہ پوچھی تو بولا۔ آپ کے ACصادق آباد نے مجھے پراپر پراٹوکول نہیں دیا۔ میں نے AC بھنڈر کی جواب طلبی کی تو اس نے بتایا کہ لالیکا نے بھونگ کسی جگہ فاتحہ پڑھنے جانا تھا۔ اس نے ہدایت کی کہ میں بھونگ موڑ پر کھڑے ہو کر اسکی آمد کا انتظار کروں۔ کسی زمانے میں بہاولنگر میں یہ صبح و شام میرے ڈیرے پر رہا کرتا تھا۔ میں نے لالیکا کی سرزنش کی تو ناراض ہو گیا۔ میاں نواز شریف سے میری شکایت کی اور تو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا کہنے لگا ڈی سی جنوب کے سادات کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔ نواز شریف ان سے خائف تھا۔ سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ان کے ساتھ Love,Hate Relationship قائم کر رکھا تھا۔ میں بہاولپور میں کمشنر تھا ایک دن ایجنسی کے سربراہ نے اطلاع دی کہ ان کا ایک خاص آدمی رات کو بارہ بجے مجھے ملے گا۔ اس کی مدد کی جائے۔ مجھے خاصی حیرانی ہوئی جب میں نے دیکھا کہ وہ شخص ستار لالیکا تھا مسکراتے ہوئے کہنے لگا ”بھائی جی ہم تو شروع ہی سے ایجنسیوں کے آدمی رہے ہیں۔ سادات کے غلام ہیں۔ بس ایک چھوٹا سا کام ہے وہ کر دیں۔ اس کے ساتھ سابقہ ضلع کونسل ناظم علی اکبر وینس تھا۔ علی اکبر پہلے پیپلز پارٹی کا سرگرم رکن تھا۔ لالیکا صاحب نے اسے جپھا ڈال لیا۔ تاریخ میں شاہوں کے عروج و زوال کے قصے پڑھتے آئے تھے۔ اس دن میاں نواز شریف کے دھڑن تختہ کی حقیقت آشکار ہو گئی۔
کانجوں بڑا کائیاں شخص تھا۔ وہ ایجنسیوں کا آدمی تو نہ تھا لیکن کبھی رات کے حصار سے باہر بھی نہ نکلا۔ اسے پتہ تھا کہ جب تک ملتان میں گیلانی اور قریشی ہیں اس کی دال نہیں گلنے والی۔ چنانچہ میاں نواز شریف کو کہہ کر ملتان کے مزید حصے بخرے کر ڈالے۔ خانیوال اور وہاڑی کی تحصیلیں تو پہلے ہی الگ ہو چکی تھیں اس نے لودھراں کو بھی ضلع کا درجہ دلوا دیا۔ باایں ہمہ اس نے لودھراں سے بھی الیکشن جیتنے میں دشواری محسوس کی اور اس کا برملا اظہار نواز شریف سے کیا۔ میاں صاحب کا پنج پیارا الیکشن ہار جائے، یہ خیال ہی ان کے لئے سوہانِ روح تھا۔ جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس سے وطن عزیز میں جمہوریت کے ڈھول کا پول کھل جاتا ہے۔ کانجو کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے مرزا ناصر بیگ اور پیر نصرالدین شاہ تھے۔ شاہ صاحب کے مریدوں کے تیس ہزار سکہ بند ووٹ تھے وہ ازخود تو الیکشن نہیں جیت سکتے تھے لیکن صدیق خان کو باآسانی ہروا سکتے تھے۔ دائیں بازو کا ووٹ تقسیم ہو جاتا۔ پیر صاحب کو بٹھانے کے لئے تین ”آفرز“ کی گئیں۔ شریعت بنچ کے جج بن جائیں۔ کسی اسلامی ملک میں سفیر لگ جائیں یا وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے مذہبی امور کے فرائض سرانجام دیں۔ انہوں نے پیشکش تو ٹھکرا دی لیکن کانجو کے حق میں بیٹھ گئے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ اس کی داستان دلچسپ بھی ہے اور طویل بھی۔ اس کے لئے بالآخر پ کو ”شاہ داستان“ پڑھنی پڑے گی۔ صدیق خان کو نائب وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔ پنج پیارگی کی وجہ سے وزیر خارجہ بھی اس سے دبتا تھا۔ سمجھ ہی نہ آتی تھی کہ خارجی امور کس شخص کے ہاتھ میں ہیں۔ کانجو کی بصارت اور بصیرت کے جوہر اس وقت کھلے جب اس نے گیلانیوں اور قریشیوں کی دیرینہ مخاصمت پر مہر سیاست ثبت کر دی۔ میاں نواز شریف اور غلام حیدر وائیں کی خواہش تھی کہ شاہ محمود قریشی اور حامد رضا گیلانی میں صلح ہو جائے۔ گیلانی کا بیٹا ضلع ناظم اور شاہ محمود کا بہنوئی محمد احمد نائب ضلع ناظم بن جائیں۔ ان میں صلح کرانے کا کام مجھے سونپا گیا۔ کانجو نے یہ کہہ کر صلح نہ ہونے دی کہ ڈی سی ای۔ پی جون (1934ءسے لیکر 1937ءتک ملتان کا مشہور ڈپٹی کمشنر) بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے حامد رضا کو ایسی زک پہنچائی کہ پھر وہ تاحیات نہ سنبھل سکا۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں بدقسمتی سے وہ دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
شیخ رشید کے متعلق ایک مرتبہ لالیکا نے کہا تا کہ ہر پارٹی کو ”لفنٹر“ کی ضرورت ہوتی ہے اور شیخ صاحب بھی ہم حسب ضرورت کام لے لیتے ہیں۔ مثلاً مخالفین کی پگڑی اچھالنی ہو، انہیں بلیغ اور ابلتی ہوئی گالیاں دینی ہوں، کسی کی ٹانگ کھینچنی ہو تو شیخ صاحب کو محض اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ سیلف اسٹارٹ ہیں، اس قسم کے مواقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ کسی نے تھانیدار سے اسکی صحت کا راز پوچھا تو بولا ”چنگا کھانے آں تے مندا بولنے آں“ شیخ صاحب کی سیاسی صحت کا راز بھی اسی روش میں پنہاں تھا۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ شیخ رشید باس کو خوش کرنے کی دھن میں ریڈ لائٹس کراس کر گئے۔ محترمہ بینظیر کے متعلق کچھ ایسی الٹی سیدھی باتیں کیں کہ دھر لئے گئے۔ جج لطف علی نے جنہیں ان کے پپلاں کلور کے گرائیں پار سے ”لٹ علی“ کہتے تھے، انہیں کلاشنکوف رکھنے کے جرم میں پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ چند سال بعد رہا کر دئیے گئے۔ جیل سے حلئے کی حد تک فلاسفر بن کر نکلے۔ زبان میں لکنت آ گئی۔ آج کل پنج پیاروں کی لسٹ سے خارج ہو چکے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن