• news

گداگروں کے خلاف آپریشن

خبر ہے کہ ضلعی حکومت لاہور نے ڈی سی او نسیم صادق کی ہدایت پر ضلع کچہری چوک اور ریگل چوک کو فقیروں سے صاف بنا دیا ہے جس کیلئے دونوں چوکوں پر سول ڈیفنس کے باوردی اہلکار تعینات کر دیئے گئے ہیں۔ گداگروں کے خلاف آپریشن میں 27 خواتین و حضرات پکڑے گئے۔سوال اٹھتا ہے کہ صرف دو چوکوں کا چناﺅ کیوں کیا گیا‘ باقی چوکوں کا کیا قصور ہے؟فقیروںاور گداگروں میں فرق ہوتا ہے۔ فقیر تو اللہ لوک اور درویش ہوتے ہیں۔ صوفی شاعر‘ شاہ حسینؒ نے اپنی ہر کافی کے آخر میں ”کہے حسین فقیر سائیں دا“ لکھا ہے۔ جنہیں مفت خوری کی عادت پڑ جائے‘ یہ کاسہ¿ گرائی لئے بھیک مانگتے ہیں لہٰذا انہیں گداگر یا بھیک منگے کہا اور لکھا جانا چاہیے۔
تجربہ کار گداگروں کا کہنا ہے کہ ایسے آدمی کے سامنے کبھی ہاتھ مت پھیلاﺅ جو زیادہ خوش پوش ہو اور جس کی چال میں تیزی ہو۔ لمبے بٹوے اور اونچی سینڈل والی عورت سے کچھ وصول نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی باریش بزرگ کے ماتھے پر سجدوں کا نشان نظرآئے تو اسکے قریب ہرگز نہ جاﺅ۔ خوبصورت بنگلوںمیں رہنے والے گداگروں پر چوری کا الزام لگا کر پکڑوا دیتے ہیں۔ ان گداگروں کے نزدیک کس قسم کے لوگ سخی داتا کہلائیں گے‘ ملاحظہ کیجئے۔ موٹر کے ڈرائیور کو اپنی ضرورت بتاﺅ۔ہر اس شخص کے سامنے فوراً ہاتھ پھیلا دو جو دوستوں میں کھڑا ہوکر شیخیاں بگھار رہا ہو۔ اس لمحے فریاد کرو جب کوئی آدمی سودا خرید چکنے کے بعد بل ادا کرنے لگے۔
چھٹی پر آیا ہوا فوجی سپاہی نسبتاً سخی ہوتا ہے۔
عدالتوں کے باہر مجرموں کے لواحقین سے خیرات ملنے کی توقع بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے آدمی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے مت ہچکچاﺅ جس کا اپنا حلیہ بھی گداگروں جیسا ہو۔ دوپٹے کے پلے میں پیسے باندھنے والی عورت کبھی ہاتھ خالی نہیں لوٹنے دے گی۔ زیادہ سے زیادہ خیرات کنجروں کے گھر سے ملتی ہے۔ شادی بیاہ پر دولہا اور رشتہ داروں کے بجائے اسکے دوستوں سے مانگو۔ اس سینما کے سامنے کھڑے ہوکر بھیک مانگو جس میں رونے والی فلم دکھائی جا رہی ہو۔ یہ تو تھے گداگروں کے تجربات۔ مجموعی طورپر سب سے زیادہ گداگر خانقاہوں میں ہوتے ہیں۔ گداگروں کی ہزاروں قسموں میں سب سے زیادہ کمائی کرنیوالے وہ چھوٹے سروں والے Johots ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں ”دولے شاہ کے چوہے“ کہا جاتا ہے۔ انسانوں کی یہ ”صنف“ ملک کے کامیاب ترین گداگروں میں شمار ہوتی ہے۔ گداگروں کی اس برادری میں ”دولے شاہ کا چوہا“ ہی وہ بلائے بے درماں ہے جو صرف آٹھ یا دس فیصد راہگیروں کو خیرات کئے بغیر گزر جانے کی اجازت دیتا ہے جس کے کندھے پر اس نے ہاتھ رکھ دیا‘ اسے کچھ نہ کچھ دیئے بغیر کوئی چارہ کار دکھائی نہیں دیتا۔ زیادہ تر لوگ اسے ”سائیں بادشاہ“ سمجھ کر دان کر جاتے ہیں۔ ہر چوہے کے ساتھ ایک ”مہاوت“ ہوتا ہے۔
دراصل یہ بے دماغ اس مہاوت کی جاگیر ہوتا ہے۔ جس کی تمام آمدنی اس کے پاس جمع ہوتی ہے۔ مہاوت نے اس چوہے کو رقم دیکر خرید لیا ہوتا ہے یا ان کے مالکوں سے دیہاڑی پر لیا ہوتا ہے۔ بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے پاس دس بیس ”چوہے“ اپنی ذاتی ملکیت ہوتے ہیں اور وہ ان بے چاروں کو آگے کرائے پر چلاتے ہیں۔ ان چوہوں کو سونے کا انڈا دینے والی مرغیاں سمجھا جاتا ہے۔ گداگروں کو جو چیز سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے‘ وہ ان کی صحت کا اچھا ہونا ہے۔ جو گداگر ظاہری طورپر ہٹا کٹا نظر آئے گا‘ اسے بھیک بھی بہت کم ملے گی۔
گداگروں میں سب سے زیادہ ذہین اندھا گداگر ہوتا ہے کیونکہ آنکھوں والا تو راہ گیر کا حلیہ اور موقع محل دیکھ کر کوئی کارآمد سوال فوراً گھڑ سکتا ہے‘ لیکن اندھے کیلئے ان باتوں سے فائدہ اٹھانا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس لئے اسے نئی نئی ترکیبوں کو استعمال میں لانا پڑتا ہے۔ بعض نے ٹولیاں بھی بنائی ہوتی ہیں۔ مثلاً تین اندھے گداگروں نے مل کر ایک پارٹی بنائی اور ایک کانے گداگر کو ملازم رکھ لیا۔ کانے گداگر کا صرف یہ کام تھا کہ وہ اندھے گداگروں کی رہنمائی کرے اور صدا لگاتا جائے۔
”بیروزگار بابا‘ آٹا پیسا دلا‘ اس کا نفع خدا سے پا“ ایک گداگر کو جب اس پیشے کی ذلتوں سے آگاہ کرکے نفرت دلانا چاہی تو اس نے سینہ اونچا کرکے جواب دیا۔ ”بابو جی بھیک ہی مانگتا ہوں‘ بلیک تو نہیں کرتا۔“ بعض گداگر اپنے رستے ہوئے زخموں کی نمائش کرکے لوگوں میں کراہت پیدا کرکے بھیک مانگتے ہیں۔ بعض گلے میں تختی لٹکائے پھرتے ہیں۔ بہرحال گداگروں کو عام طورپر نفرت ہی سے دیکھا جاتا ہے۔ ہر شخص چاہے وہ آٹے میں ریت ملا کر بیچتا ہو یا دودھ میں پانی۔ ضرورت کی چیزوں کی بلیک کرکے پوری قوم کا سر مونڈتا ہو یا ناجائز فروشی کا کاروبار چلاتا ہو۔ وہ بھی گداگروں کو قابل نفرین ہی سمجھتا ہے۔ایک دو چوکوں پر گداگروں کو ہٹانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کا کوئی ہمہ گیر علاج ہونا چاہئے۔ قومی بیماریوں کا علاج نفرت سے نہیں‘ محبت‘ احساس اور تندہی ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
کسی ادیب نے لکھا تھا ”اس بھاگتی ہوئی دنیا میں ضرورت مند ہاتھ پھیلائے رہ جاتے ہیں‘ لیکن کوئی اپنی رفتار کم نہیں کرتا۔“

ای پیپر-دی نیشن