2014ءمیں فوجی انخلا سے متعلق معاہدے پر افغانستان اور امریکہ میں اختلافات
کابل (بی بی سی + اے این پی + رائٹرز) افغانستان سے امریکی افوج کے 2014ءمیں انخلا سے متعلق معاہدے پر اختلافات پیدا ہو گئے۔ افغان صدر کے ترجمان نے عندیہ دیا ہے کہ شاید صدر کرزئی اس معاہدے پر دستخط ہی نہ کریں۔ غیر ملکی خبررساں ادارے نے افغان صدر کے ترجمان ایمل فیضی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ شاید یہ معاہدہ اگلے برس اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج تک طے نہ پا سکے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ معاہدہ اسی ماہ اکتوبر میں طے ہو جائے۔ ایمل فیضی نے گذشتہ روز صحافیوں کو بتایا امریکہ اس معاہدے میں 2014ءکے بعد بھی فوجی آپریشن، رات کو چھاپے اور گھروں کی تلاشی کی آزادی چاہتا ہے۔ امریکہ کو یکطرفہ طور پر افغانستان میں کارروائیاں کرنے کی اجازت افغانوں کو قابل قبول نہیں۔ افغانستان میں القاعدہ کے صرف 75 کارندے موجود ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے امریکہ کو دس برس تک یکطرفہ طور پر فوجی کارروائیوں، رات کو چھاپوں اور گھروں کی تلاشی کی اجازت دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ دونوں ممالک کو معاہدے میں افغانستان کے خلاف جارحیت کی تشریح پر بھی اختلافات ہیں۔ انہوں نے کہ افغانستان سمجھتا ہے کہ اگر بیرون ممالک سے دہشت گردوں کو افغانستان میں حملوں کے لئے بھیجا جائے تو اسے بھی افغانستان کے خلاف جارحیت تصور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے لہٰذا افغانستان کے خلاف جارحیت کی صورت میں اس کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔ صدارتی ترجمان نے کہا کہ اگر موجودہ صدر امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں اور مستقبل میں معاملات توقع کے برعکس خراب ہو جاتے ہیں تو تاریخ ان سے جواب طلب کرے گی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ 2014ءکے بعد افغانستان میں امریکی فوجوں کے کردار کے بارے میں معاہدے کی تفصیلات رواں ماہ میں طے پا جائیں۔