• news

نواز شریف کا خطاب اور کرداروعمل میں تضاد

عالمی سطح کے الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کے اقدمات سے آگاہی کیلئے دنیا کی نظریں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس پر لگی ہوتی ہیں جس سے سربراہان خطاب کرتے ہیں۔میاں نواز شریف نے یہ خطاب 27ستمبر کو کیا۔وہ چونکہ ۱۴ سال بعد اقتدار میں آئے اور پاکستان گھمبیر بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے، دہشتگردی عروج پر ،بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی انتہاﺅں کو چھورہی ہے،امریکی ڈرون تسلسل کے ساتھ برس رہے ہیں، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک زوروں پر ہے، فرقہ واریت بھی سر اٹھا چکی ہے اور کراچی میں سر پھری سیاسی قوتوں کو شدت پسند قوتیں مات دیتی نظر آ رہی ہیں اس لئے انکے خطاب کی بڑی اہمیت تھی ۔بلا شبہ نواز شریف نے اپنے خطاب میں بڑی حد تک قومی امنگوں کی ترجمانی کی ۔ انکے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی بڑی پذیرائی ہورہی ہے۔ہمارے رویے عموماً سچائی نہیں ہمارے مفادات اور خواہشات کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ میاں نواز شریف اپنے خطاب میںجو کچھ کہتے اس کی تحسین کرنیوالوں نے بغیر پڑھے اور سنے اس کو سراہنا اور مخالفین نے ہر صورت مخالفت کرناہوتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا تیسری بار اقتدارمیں آنے کے بعد اقوام متحدہ میں یہ پہلا خطاب تھا۔ انہوں نے واقعی جرا¿ت اظہار کا مظاہرہ کیا۔اقوامِ متحدہ اور امریکہ کو بڑی نرمی سے مخاطب کرتے ہوئے کچھ سخت باتیں بھی کہہ دیں۔ یہی کچھ بھارت کے حوالے سے بھی کیا گیا۔ اس جرا¿ت کے باوجود بھی خطاب اور کردار میں کہیں دہرا معیار نظر آیا تو کہیں پاکستان کے مسائل کے حل سے کئی پہلو تشنہ تکمیل بھی رہ گئے۔ میاںنواز شریف کے کشمیراور ڈرون حملوں کے حوالے سے اظہار کو جرا¿ت مندی کا عکاس قرار دیاجارہا ہے۔نواز شریف نے چرچ کے حملے کو افسوسناک قرار دیا۔ہم اپنے کالم میں انہی تین موضوعات کا احاطہ کریںگے۔
وزیراعظم میاںنواز شریف کے خطاب سے قبل پاکستان میں چہ میگوئیاں ہورہی تھیںکہ مسئلہ کشمیر پر میاں صاحب شاید خاموشی اختیار کرینگے کیونکہ ان بھارت کے تعلقات ،تجارت اور دوستی کے معاملے میں خواہش کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی لیکن اسکے برعکس میاںنواز شریف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کھل کر اظہارکیا۔حالانکہ ان کی بھارتی وزیراعظم منموہن کے ساتھ گزشتہ روز کی یعنی29ستمبر کی ملاقات طے ہوچکی تھی۔ وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اسکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل پر زوردیا۔ انہوں نے اس مسئلہ کو 7دہائیوں سے لاینحل قرار دیا۔بھارت مسئلہ کشمیر کے ذکر ہی سے چڑ جاتا ہے۔اس نے مذاکرات، جامع مذاکرات، بیک چینل ڈپلومیسی اور ٹریک ٹو پالیسی کو وقت گزاری اور ٹال مٹول کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ تو کیا وہ تو اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔اس کا اظہار منموہن سنگھ نے اپنے اسی پلیٹ فارم پر اگلے روز خطاب میں بھی کیاہے۔ بھارت کی نظر میںمتنازعہ کشمیر کا وہ حصہ ہے جس کو آزاد کشمیر کہاجاتا ہے۔میاں نواز شریف نے مسئلہ کشمیر پر بات تو بڑی دلیری سے کی ،کیا وہ اپنے کردار و عمل سے بھی ایسی ہی جرا¿ت مندی کا اظہار کرینگے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ آج ہماری شہ رگ پر بھارت کا انگوٹھا ہونے کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات اور دوستی ہے جبکہ تجارت بھی ہو رہی ہے وہ بھی خسارے کی۔
 قائداعظم کے جانثار،بزعمِ خویش سیاسی جاں نشین کو کیا ایسے ملک کے ساتھ پیارکی پینگیں بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کوشش تو بہت چھوٹا لفظ ہے اِدھر تو بڑی بے صبری اور بے قراری پائی جاتی ہے۔ (2) ڈرون حملوں کی شدت سے مخالفت کی گئی ہے۔ امریکہ کو ایک بار پھر ڈرون حملے روکنے کو کہا گیا۔اسکے مضمرات سے عالمی برادری کو آگاہ کیا گیا۔ ڈرون حملوں کیخلاف پاکستان نے اقوام متحدہ سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔ ڈرون حملے روکنے کی خواہش اور کوشش اپنی جگہ‘ ذرا پارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادوں کا بھی جائزہ لے لیں۔ ان پر عمل کر لیا جائے تو ڈرون رُک سکتے ہیں۔ (3) پشاور چرچ کے حملے کے حوالے سے میاں نواز شریف نے ذکر کرتے ہوئے کہا ”ہم اقلیتی برادری کے ارکان پر حالیہ دہشت گرد حملے سے بہت زیادہ افسردہ ہیں، اس گھناﺅنے حملے نے پوری پاکستانی قوم کو متحد کیا ہے۔ ہم انکے دکھ میں شریک ہیں۔ یہ حملہ انہی عناصر نے کیا ہے جنہوں نے ہماری مساجد‘ بے گناہ شہریوں اور ہماری سکیورٹی فورسز کے ارکان کو نشانہ بنایا ہے۔“ چرچ پر حملے میں ہلاکتیں قابل مذمت اور انتہائی افسوس ناک ہیں، اس پر ہر درد دل رکھنے والا غمزدہ ہے۔ چرچ میں مرنے والے پاکستانی ہیں۔ ان کا میاں صاحب نے الگ سے ذکر کرکے اقلیتوں سے ہمدردی کی یا عالمی سطح پر انکی تنہائی کا احساس دلا دیا۔ یہ سب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ حملہ بھی باقی حملوں کی طرح پاکستانیوں پر حملہ ہے۔آخر میں میں نیویارک سے بھیجی گئی نوائے وقت کی اس رپورٹ کا تذکرہ کرنا چاہتا ہو ں جو کم وبیش اسی حوالے سے ہے اور میرے نقظہ نظر کی مزید تائید بھی ہے۔ ”وزیراعظم نے پشاور چرچ میں دھماکہ کے حوالے سے مسلمانوں کا ”سٹیرو ٹائپنگ“ ذکر کیوں کیا؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے، جب پوری دنیا پاکستان میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے بارے میں کچھ سننا چاہتی تھی۔
 وزیراعظم کی تقریر میں پاکستان کی سکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے خصوصی طور پر کسی مربوط حکمت عملی کا فقدان نظر آیا اور تقریر میں ”مذاکرات“ ”قربانیاں“ اور ”دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا“ جیسے الفاظ کو ہی دہرایا گیا‘ ہر کوئی جانتا ہے کہ نوازشریف کو سکیورٹی صورتحال کے علاوہ کسی بڑی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں۔“
علم الاعداد کی روشنی میںپاکستان اور بھارت کے درمیان انتہائی کشیدہ حالات کے باوجود جنگ کے دوردور تک امکانات نہیں ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن