شملہ معاہدہ مسئلہ کشمیر کے حل میں بڑی رکاوٹ
بھارت کے پرفضا پہاڑی مقام شملہ میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظموں اور وزرائے خارجہ کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان امن کا ایک معاہدہ طے پایا جس کو ہم ”شملہ معاہدہ“ کہتے ہیں۔ ان مذاکرات کی میز پر ذوالفقار علی بھٹو ایک مفتوح ہارے ہوئے جواری کی طرح اور اندرا گاندھی ایک فاتح اور جیت کے نشے میں سرشار بیٹھی تھیں۔ اعصاب شکن ماحول نے اس پرفضا ٹھنڈے ماحول کو بھی گرما کر رکھ دیا تھا۔ اہلیان پاکستان مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتا دیکھنے کے صدمے اور 90ہزار کے لگ بھگ فوجیوں و سول افراد کی بھارت میں قید سے پریشان تھے۔ بھٹو پر دباﺅ تھا کہ قومی وقار اور ملک سالمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس طرح ان قیدیوں کو رہا کرایا جائے اور ملکی مفادات کے خلاف کوئی معاہدہ نہ ہو۔ تو اندرا گاندھی ہزار سالہ غلامی کے بدلے کے نشے میں باقی ماندہ پاکستان کی طرف نخوت سے دیکھ رہی تھی۔ یہاں پر بھٹو مرحوم کا زرخیز دماغ اور اعلیٰ صلاحیتوں کا امتحان تھا۔ اگر وہ ہارے ہوئے پاکستان آتے تو ان کا کوئی مستقبل نہ ہوتا۔ اندرا کے پاس تو کھونے کیلئے کچھ نہ تھا وہ تو سب کچھ جیت چکی تھی۔ یہاں بھٹو مرحوم نے کامیابی سے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اندرا گاندھی کو اپنی سیاسی قابلیت کے سحر میں جکڑا اور ایک آبرو مندانہ معاہدہ کرکے اپنے 90ہزار قیدیوں کو رہائی دلوائی۔ یہاں سے اس معاہدے کے بعد بھی اندرا نے کچھ نہیں کھویا بلکہ اس نے بھی نہایت مہارت سے مسئلہ کشمیر کو عالمی مسئلے کی فہرست سے نکال کر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ کی حیثیت دیدی اور پاکستان کو پابند کر دیا کہ وہ اس مسئلے کو کسی عالمی فورم پر اٹھانے کی بجائے بھارت کے ساتھ باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کریگا۔ کون جیتا کون ہارا اس کا فیصلہ مستقبل کا مورخ کریگا مگر مسئلہ کشمیر کو نہایت بے رحمی کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے سرد خانے کی زینت بنا دیا گیا۔
شملہ معاہدے کے تحت یہ تنازعہ دونوں ملکوں کا باہمی معاملہ ہے اور وہی اس کا بات چیت سے کوئی حل تلاش کریں گے۔ کسی تیسرے ادارے یا ملک کی ثالث بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ گویا سیز فائر لائن کو پہلے سے ہی کنٹرول لائن قرار دے دیا گیا تھا۔ اب اس کو ایک مقدس سرحد کی حیثیت حاصل ہو گئی جس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ گذشتہ روز جب اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کیا اور اس کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا تو بھارتی وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ان قراردادوں کو متروکہ قرار دے کر کہا کہ یہ اب ناقابل عمل ہو چکی ہیں۔ یہ شملہ معاہدے کی بدولت ہی کہا گیا اور بھارت نے عالمی برادری کو بھی نہایت احسن طریقے سے یہ پٹی پڑھا دی ہے کہ شملہ امن معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت تمام متنازع معاملات کسی عالمی فورم پر نہیں اٹھائے جا سکتے اور اسے دونوں ممالک باہمی مذاکرات سے ہی حل کریں گے۔
1990ءکے بعد سے کشمیر کے حالات نے جو پلٹا کھایا اور تحریک آزادی شروع ہوئی وہ اس بات کی گواہ ہے کہ کشمیری کسی ایسے معاہدے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں جس میں ان کی مرضی کے بغیر ان کے مستقبل کا فیصلہ کیا گیا ہو یا کیا جا رہا ہو۔ لاکھوں کشمیریوں نے اپنی جان، گھر بار، مال و اسباب قربان کر کے دنیا کو باور کرایا ہے کہ کنٹرول لائن کوئی عالمی سرحد نہیں یہ سیز فائر لائن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں پر جنگ رکی ہے ختم نہیں ہوئی۔ ان حالات میں جب بھارت شملہ معاہدے کی آڑ میں پاکستان کی سفارتکاری اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بے دست و پا کرنا چاہتا ہے۔ تو بہتر ہے کہ پاکستان بھی اس معاہدے کو بلیک میلنگ کا شکار بننے کی بجائے بھارت سے عالمی سطح پر اس معاہدے پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرے۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادیں جس پر عالمی برادری متفق تھی 65 برسوں میں متروکہ ہو سکتی ہیں تو شملہ معاہدہ کونسی خدائی تحریر ہے۔ اسے بھی موجودہ حالات میں متروک العمل قرار دے کر اس پر نظرثانی کرکے مسئلہ کشمیر کے حقیقی حل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔جو صرف اور صرف رائے شماری ہے۔ اب دیکھنا ہے پاکستانی حکومت اس بارے میں روایتی سیاست کرتی ہے یا حقیقی قدم بڑھاتی ہے۔