شہید وائیں، باقی آئیں بائیں شائیں
قائداعظم کی مسلم لیگ اور پاکستان کا ایک سیاستدان تھا اور وہ غلام حیدر وائیں تھا۔ اس کے علاوہ تو سارے کے سارے آئیں بائیں شائیں ہی ہیں۔ ایوان کارکنان پاکستان اس بڑے آدمی کی پاکستان اور نظریہ پاکستان کے ساتھ محبتوں کی نشانی ہے۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے سچے کارکن پاسبان نظریہ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی ان کو دوست رکھتے تھے۔ مجید صاحب نے اس وابستگی کو اپنی نظریاتی وارفتگی بنا لیا ہے۔ ہال میں بہت شاندار تقریبات ہوتی ہیں۔ نظریہ پاکستان کی خوشبو چاروں طرف بکھر بکھر جاتی ہے۔ اس ہال میں قائداعظم علامہ اقبال اور مادر ملت کے علاہ ایک ہی تصویر ہے اور وہ غلام حیدر وائیں کی ہے۔ یہی اس عظیم شخص کے زندہ جاوید ہونے کی دلیل ہے۔ شہید زندہ ہوتے ہیں۔
ایک فیصلہ نواز شریف کی سیاست کا ثمر ہے اور وہ ایک مخلص خاکسار اور بے غرض نظریاتی کارکن وائیں صاحب کو وزیراعلیٰ بنانے کا تھا۔ پاکستان کے ساتھ منسوب ادارے اور عمارتیں اسی دور کی نشانیاں ہیں۔ میاں چنوں میں ایک سابق وزیراعلیٰ کو بڑی آسانی سے شہید کر دیا گیا اور آج تک ان کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ شہباز شریف نے وائیں صاحب کے کاموں کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے وائیں صاحب کے دوستوں کی قدر کی ان کے ساتھ تعاون بھی کیا مگر ان کے قاتل قانون کے قابو میں نہیں آئے۔ انہیں حکومت کی عدم دلچسپی سے اتنا بھی احساس نہیں کہ انہوں نے ایک بڑے انسان کو نہیں مارا۔ کوئی کیڑا مکوڑا مارا ہے۔ نواز شریف نے دوستوں وغیرہ کی دلجوئی کے لئے کئی خواتین کو ممبر اسمبلی بنایا مگر شہید وائیں کی بیوہ، بہادر اور نظریاتی خاتون مجیدہ وائیں کو ممبر نہ بنایا۔ اب کے انہیں ممبر اسمبلی بنایا گیا ہے۔
مجھے برادرم شاہد رشید نے بتایا کہ محترمہ مجیدہ وائیں نے غلام حیدر وائیں ٹرسٹ بنایا ہے تاکہ ان کے بنائے ہوئے ادارے ٹرسٹ کے زیراہتمام پلتے رہیں۔ محترمہ مجیدہ وائیں کو اس کے لئے گرانٹ دی جائے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے شہید وزیراعلیٰ کے حوالے سے اتنی بیزار کیوں ہے۔ وائیں صاحب میاں چنوں میں اتنے مقبول تھے کہ انہیں لوگ میاں چنوں کا سرسید کہتے تھے۔ ان کا جنازہ بے مثال تھا۔ ان کی برسی پر بڑا اجتماع تھا۔ نوائے وقت کے کالم نگار عزیز ظفر آزاد بھی وہاں گئے تھے۔ خواجہ سعد رفیق اور تہمینہ دولتانہ نے خوب خطاب کیا۔ وہ جیسا وائیں صاحب کے لئے کہتے ہیں خود ان کے جیسے کیوں نہیں بن جاتے۔ عزیز ظفر نے بتایا کہ غلام حسین شاہد کی تقریر بہت زبردست تھی۔ جسے سن کر میاں چنوں کے لوگوں نے شرم سے سر جھکا لئے۔ مجیدہ وائیں بھی تھیں۔ سب کی لاہور واپسی خواجہ صاحب کی ٹرین سے ہوئی۔ وہ ریل گاڑی کے مستقل مسافر ہیں۔ سنا ہے کہ وہ نہ ہوں مگر ان کا سپیشل سیلون ہر ریل گاڑی کے ساتھ موجود ہوتا ہے تاکہ پتہ چلتا رہے کہ خواجہ صاحب ریل کے اندر ہیں۔ وہ جیل میں رہے ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی بڑی بھرپور ہے۔
محترمہ مجیدہ وائیں لاہور میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام برسی کے جلسے میں بھی تھیں۔ یہاں ہر سال وائیں صاحب کی برسی کی تقریب ہوتی ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی صدارت کرتے ہیں اور شاہد رشید کمپیئرنگ کرتے ہیں۔ اس بار قائم مقام گورنر رانا محمد اقبال مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے خوب تقریر کی۔ گورنر ہاﺅس کے ڈی پی آر آغا مشہود شورش بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مسعود شورش نے شورش کاشمیری کے کچھ زندہ تر جملے سنائے: ”دو آدمی بہادر ہیں، ایک جو سچ کہے اور ایک جو سچ سنے۔ حکمران پیٹ سے سوچتے ہیں اور دماغ سے کھاتے ہیں۔“
رانا اقبال خوب آدمی ہیں۔ کبھی کبھی جملہ بازی بھی کرتے ہیں۔ آج وہ بجلی پٹرول کے لئے اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کا دفاع کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ جس دن وائیں صاحب نے حلف اٹھانا تھا مجھے والد صاحب رانا پھول محمد نے ان کے پاس بھیجا۔ وہ بنیان پہنے ہوئے بیٹھے نوائے وقت پڑھ رہے تھے۔ میں نے ابا کو بتایا لگتا تو نہیں ہے کہ وہ وزیراعلیٰ بن رہے ہیں۔ وہ بن گئے اور وزیراعلیٰ بن کر بھی ایسے ہی رہے۔ رانا صاحب نے جملہ تو کوئی نہ چھوڑا البتہ بشریٰ رحمان کے آگے سر جھکا دیا۔ یہ تصویر اخبار میں شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے بلبل پاکستان سے کہا مجھے پیار دیں۔ آپ پنجاب اسمبلی میں میرے والد صاحب کی کولیگ تھیں۔
ایڈووکیٹ اسلم زار نے بڑے جذبے سے زوردار تقریر کی۔ اقبال کا بہت بڑا شعر پڑھا۔
ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
وائیں صاحب نرم رو قاصد تھے۔ انہوں نے قائداعظم کا پیغام زندگی ہر طرف پہنچا دیا۔ یہ پیام مسلم لیگ کی سیاست اور قیادت نے خبر دینے والی ”بجلیوں“ میں بھسم کر دیا ہے۔ اسلم زار نے وائیں صاحب کو درویش وزیراعلیٰ کہا۔ ایم پی اے رانا محمد ارشد نے بتایا کہ دو موٹر سائیکلیں وائیں صاحب نے ایم ایس ایف کو تحفے میں دی تھیں جبکہ ان کے اپنے پاس سائیکل بھی نہ تھی۔ بلبل پاکستان بشریٰ رحمان کی تقریر کے دوران سب سے زیادہ تالیاں بجائی گئیں۔ انہیں محفل لوٹنا آتا ہے۔ رانا اقبال کی خدمت میں گزارش ہے کہ بلبل بوڑھی نہیں ہوتی۔ وہ رانا صاحب کے والد صاحب رانا پھول محمد کی کولیگ تھیں۔ وہ رانا اقبال کی بھی کولیگ ہوتیں مگر نواز شریف نے انہیں ٹکٹ ہی نہ دیا۔ اور رانا صاحب کبھی قومی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں لیں گے۔ محترم محمد نعیم چٹھہ کی گفتگو سیاسی تھی۔ وہ اسے غیرسیاسی بنانے کی کوشش کرتے رہے۔
ڈاکٹر مجید نظامی کی تحریر شاہد رشید نے پڑھ کر سنائی۔ پھر ان کو تقریر کے لئے بھی دعوت دی۔ مجید صاحب نے بتایا کہ امرتسر سے لاہور آئے تو وائیں صاحب سر پر ایک سوٹ کیس اٹھایا ہوا تھا۔ جب اسے کھولا تو اس میں نوائے وقت کے پرانے پرچے تھے۔ وائیں صاحب پکے سچے نوائے وقتیئے تھے۔