کوئی ”گمنام“ لیفٹیننٹ جنرل بھی آرمی چیف بن سکتا ہے، 3نام سرفہرست
کوئی ”گمنام“ لیفٹیننٹ جنرل بھی آرمی چیف بن سکتا ہے، 3نام سرفہرست
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) وزیراعظم نوازشریف اپنے اختیارات کو بروئے کار لا کر کسی جونیئر لیفٹیننٹ جنرل کو بھی فوج کا نیا سربراہ مقرر کر سکتے ہیں تاہم وہ ماضی قریب میں اشارے دے چکے ہیں کہ نئی تقرری سنیارٹی کی بنیاد پر عمل میں آئے گی۔ سنیارٹی اور فوج میں مقبولیت کے اعتبار سے تین لیفٹیننٹ جنرل سرفہرست ہیں۔ تاہم نئے آرمی چیف کی تقرری میں سنیارٹی واحد معیار نہیں ہو گا، ملک کی داخلی اور بیرونی سلامتی کے بارے میں وزیراعظم کے تصورات اور ترجیحات بھی اس بارے میں فیصلہ پر اثرانداز ہوں گے۔ فوج کے بارے میں ایک عمومی رائے ہے کہ وہ بطور ادارہ سابقہ پالیسیوں پر ہی چلتی ہے اور بہت کم کسی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں متعارف کرائی جاتی ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو کوئی گمنام لیفٹیننٹ جنرل بھی نیا آرمی چیف بن سکتا ہے جس سے وزیراعظم سلامتی اور دفاع کے تصورات و موجودہ پالیسیوں میں اہم تبدیلیاں لانے کی توقع رکھتے ہوں۔ سیاسی قیادت کی برتری تسلیم کیا جانا بھی وزیراعظم کی ایک اہم ترجیح ہو گی۔ جی ایچ کیو میں تعینات چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو لاہور سے تعلق، سابق صدر رفیق تارڑ کے ملٹری سیکرٹری ہونے اور آرمی چیف جنرل کیانی کا معتمد ہونے کے باعث متوقع امیداواروں کی فہرست میں سب سے اوپر سمجھا جاتا ہے۔ میجر جنرل شبیر شریف کے بھائی لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کو فوج میں پیشہ ورانہ مہارت کے باعث بعض حلقے موزوں امیدوار گردانتے ہیں جبکہ کور کمانڈر منگلا لیفٹیننٹ جنرل طارق خان بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ انہیں آبادی کا انخلاءکر کے پوری قوت کے ساتھ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی حکمت عملی کا بانی خیال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر مستقبل قریب میں ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کرنا ہے تو جنرل طارق خان موزوں آرمی چیف ہوں گے۔ پشتون ہونے کے ناطے بھی انہیں شورش زدہ علاقوں میں کارروائی کیلئے موزوں خیال کیا جا رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کو بھی بعض حلقے مستقبل کا آرمی چیف خیال کرتے ہیں۔ ان کی اور لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود نے اگلے برس 9 اپریل کو یعنی ایک ہی روز ریٹائر ہونا ہے۔
گمنام جنرل آرمی چیف