لاپتہ افراد کیس : ہر مقدمے میں حساس اداروں کا تعلق نکل آتا ہے ‘ آنکھیں بند نہیں کر سکتے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (آن لائن + اے پی اے) سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کے دوران تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ہر مقدمے میں حساس اداروں کا تعلق نکل آتا ہے، بازیاب ہونے والے افراد کو اس طرح سے خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی بیان دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لاپتہ افراد کے ساتھ جو کچھ ہوا حساس ادارے ذمہ دار ہیں، اس پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ بہتر ہوگا کہ جس ادارے کے پاس جو بھی لوگ ہیں ان کے بارے میں قانونی طور پر کارروائی کی جائے۔ بعض مقدمات میں ٹھوس شواہد ہیں لاپتہ افراد کا نہ ملنا المیہ ہے۔ پولیس نے بھی اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں جو ادارہ چاہتا ہے مرضی سے ان کے تھانے کی حدود میں کارروائی کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔ پولیس کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریزاں رہتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی بارے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کی کارکردگی صفر ہے، وہ محض دکھاوے طور پر بنائی گئی ہیں ان کی کارکردگی سے واضح ہے کہ کوئی لاپتہ شخص بازیاب نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران دیئے ہیں عدالت نے عتیق الرحمان لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے فیروز والا پولیس سے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کی ہے اور سابق ایس ایچ او کو بھی جواب داخل کرنے کیلئے ذاتی طور پر طلب کیا ہے عدالت نے ملتان سے لاپتہ سعید احمد اور سجاد الحسن کی بازیابی کیلئے پولیس کو دو ہفتوں کی مہلت دی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور آمنہ مسعود جنجوعہ کے علاوہ متعلقہ پولیس افسر بھی پیش ہوئے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ 2012ءمیں پہلے بھی درخواست دی گئی تھی کہ سجاد کو زبردستی لاپتہ کیا گیا تھا۔ عدالت نے آرڈر میں لکھوایا کہ سجاد کو دو ہفتوں میں بازیاب کیا جائے سعید احمدکو کراچی سے اٹھایا گیا تھا ان کے بارے میں بھی دو ہفتوں میں بازیابی کا حکم دیا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے حساس ادارے بندے کیوں نہیں دے رہے۔ گواہوں کو طلب کیا جائے ان پر جرح کی جائے اور ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے۔ جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ لوگوں کو اس طرح سے خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ کوئی بیان نہیں دیتا۔ عدالت نے حکم میں کہا کہ لاپتہ افراد کا نہ ملنا المیہ ہے حساس ادارے ایسے واقعات سے انکاری ہیں تو پھر کون ذمہ داری اٹھائے گا، فیروزوالا پولیس سٹیشن کے قریب بندے غائب ہوتے ہیں اگر یہ نہ ملا تو سب پولیس افسروں کیخلاف کارروائی ہو گی۔ سابق ایس ایچ او اپنا جواب داخل کرے۔ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے فیروز والا پولیس سے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کی اور سابق ایس ایچ او کو بھی جواب داخل کرنے کیلئے ذاتی طور پر طلب کیا ہے، لاپتہ ہونے والے سعید احمد اور سجاد الحسن کی بازیابی کیلئے پولیس کو دو ہفتوں کی مہلت دے دی ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس میں کہا کہ ہر مقدمے میں حساس اداروں کا تعلق نکل آتا ہے، بازیاب ہونے والے افراد کو اس طرح سے خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی بیان دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ، لاپتہ افراد کے ساتھ جو کچھ ہوا حساس ادارے کررہے ہیں اس پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے ، بہتر ہوگا کہ جس ادارے کے پاس جو بھی لوگ ہیں ان کے بارے میں قانونی طور پر کارروائی کی جائے ، بعض مقدمات میں ٹھوس شواہد ہیں تاہم لاپتہ افراد کا نہ ملنا المیہ ہے، طارق کھوکھر نے بتایا کہ پولیس کی رپورٹ نامکمل ہے تحقیقات کے لئے کہا ہے کہ پٹرول پمپ سے اٹھایا گیا ہے ٹک شاپ، پنکچر والے سے بھی معلومات حاصل کی گئی ہیں پنجاب حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ کوششیں جاری ہیں پٹرول پمپ تھانے سے صرف ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ پولیس رپورٹ کے بعد کچھ تو ہونا چاہیے تھا حساس اداروں سے رابطہ کیا جاتا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ سب محض دکھاوا ہے۔ طارق کھوکھر نے بتایا کہ پولیس یونیفارم میں دو افرادکو اٹھایا گیا عبدالوسیم اور عثمان غنی کو پٹرول پمپ سے اٹھایا گیا۔ گواہوں کے مطابق فیروز والا کے اس واقعے میں پولیس ملوث ہے عدالت نے ایس ایچ او سے پوچھا کہ ان افراد کے حوالے سے بیانات حلفی جمع کرائے جائیں واقعہ آپ کے تھانے کی حدود میں ہوا ہے،آپ کو دو ہفتے کا وقت دیا جاتا ہے، عدالت نے حکمنامہ میںتحریر کرایا کہ بعض مقدمات میں ٹھوس شواہدہیںتاہم پھر بھی لاپتہ افراد کا نہ ملنا المیہ ہے حساس ادارے اس طرح کے واقعات سے انکاری ہیں تو پھر کون ذمہ داری اٹھائے گا۔فیروز والا پولیس سٹیشن کے قریب بندے غائب ہوتے ہیں اگر یہ نہ ملا تو سب پولیس افسروں کیخلاف کارروائی ہوگی سابق ایس ایچ او جواب داخل کرے ۔سپریم کورٹ نے پنجاب پولیس کو عتیق الرحمن کو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیا۔ فیروزوالا کے عبدالوہاب کی بازیابی کیلئے 2 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے ایس ایچ او کو طلب کر لیا۔