امریکہ، یورپی ممالک، خلیجی ریاستوں، چین، سعودی عرب اور بھارت کے نئے آرمی چیف میں دلچسپی
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) نئے آرمی چیف کی تقرری اگرچہ خالصتاً پاکستان کا داخلی معاملہ ہے تاہم امریکہ بطور خاص اور متعدد دیگر ملک بالعموم اس معاملہ میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ ایک مستند ذریعے کے مطابق امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اس خطہ کی سلامتی میں پاکستان کے کلیدی کردار، افغانستان کی صورتحال ، اگلے برس اتحادی افواج کے انخلا کے منصوبے اور اس میں پاک فوج کے درکار تعاون کی وجہ سے پاکستانی فوج کے نئے سربراہ کے چناﺅ سے ان کے جائز مفادات وابستہ ہیں۔یورپی ملک،خلیجی ریاستوں، ترکی،چین اور سعودی عرب جیسے دوست ملک کے علا وہ بھارت کو بھی نئے آرمی چیف کی تقرری کا بے چینی سے انتظار ہے۔اس ذریعے کے مطابق بعض ملکوں کے ساتھ پاکستان کے دو طرفہ تعلقات دراصل سلامتی و دفاع کے شعبہ میں تعاون کی بنیاد پر استوار ہیں۔ ان ملکوں میں چین اور سعودی عرب نمایاں ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم نوازشریف چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں جوہری تبدیلیاں متعارف کراتے ہوئے دفاع و سلامتی کے علاوہ تجارت و معیشت کو کلیدی حیثیت دے رہے ہیں اس کے باوجود دفاع و سلامتی کے شعبے میںتعلقات کو بھی مزید استحکام ملے گا۔ دوست ملکوں کو نئے آرمی چیف کی تقرری کا اس لئے بھی انتظار ہے کیونکہ پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا خارجہ پالیسی سازی اور ترجیحات کے تعین میں کردار ناقابل تردید ہے۔ نئی تقرری اس لئے بھی اہمیت اختیار کر رہی ہے، متوقع فوجی سربراہوں میں سے ایک افسر کو چین نواز سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کیلئے پاکستان کے نئے آرمی چیف میں دلچسپی ہر اعتبار سے قابل فہم ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں مشرقی سرحد پر بھارت کے جارحانہ طرز عمل کا اسی انداز میں جواب دیا تھا۔ ان کے بعد جنرل کیانی نے عزم نو سیریز کے تحت وار گیمز اور بھارت کے ساتھ متصل صحرائی علاقہ میں گرم ترین موسم کے دوران فوجی مشقیں منعقد کر کے واضح کر دیا تھا کہ بھارت کو ” کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن“ کے تحت مہم جوئی کا فوری جواب دیا جائے گا۔ یورپی ملک پاکستان کی داخلی سیاست مین فوج کے طاقتور کردار کے باعث یہ دیکھ رہے ہیں کہ نیا آرمی چیف کس حد تک سویلین حکومت کی تابعداری کرے گا۔ سعودی عرب کیلئے نئے آرمی چیف کی تقرری خاص اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاع و سلامتی کے شعبہ میں تعلقات کسی وضاحت کے محتاج نہیں۔ یہ تعاون بسا اوقات سفارتی تعلقات کا نعم البدل بھی ثابت ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ایران سے قربت بڑھائی گئی اور سعودی عرب سے دو طرفہ تعلقات سردمہری کا شکارر ہے۔ اس موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات ہی واحد قابل اعتماد رابطہ باقی رہ گیا تھا۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان سب ملکوں کو جنرل کیانی کے جانشین کا نام جاننے کیلئے رواں ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔