آرمی چیف جنرل کیانی کا 27 نومبر کو ریٹائر ہونے کا اعلان‘ ریشہ دوانیوں میں مصروف عناصر کیلئے دھچکا....آنیوالی عسکری قیادتوں کو بھی اس شاندار روایت کی پاسداری کرنی چاہیے
آرمی چیف جنرل کیانی کا 27 نومبر کو ریٹائر ہونے کا اعلان‘ ریشہ دوانیوں میں مصروف عناصر کیلئے دھچکا....آنیوالی عسکری قیادتوں کو بھی اس شاندار روایت کی پاسداری کرنی چاہیے
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس سال 29 نومبر کو اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر آرمی چیف کے منصب سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے مستقبل کے بارے میں میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ مدت سے انکی ذمہ داریوں اور آئندہ کے منصوبوں کے حوالے سے افواہیں گردش کررہی تھیں‘ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں جبکہ متعدد رپورٹوں میں انہیں نئی ذمہ داریاں سونپے جانے کا ذکر بھی کیا گیا۔ وہ پاکستان کی سیاسی قیادت‘ قوم اور فوج کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ملکی تاریخ کے اس نازک موقع پر مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ میں اس عمومی رائے سے متفق ہوں کہ ادارے اور روایات افراد سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں‘ جنہیں اہمیت دی جانی چاہیے۔ بیان کے مطابق جنرل کیانی نے کہا کہ اب جبکہ میں اپنے منصب سے سبکدوش ہو رہا ہوں‘ اس وقت ملک میں عوامی رائے جڑیں پکڑ چکی ہے‘ دستور کام کررہا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اس جمہوری نظام کی مکمل حمایت کرتی ہیں اور اس نظام کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاک فوج نے واضح سوچ کے ساتھ اور پاکستان کو درکار درست سمت کا ادراک کرتے ہوئے ملک کی حتمی منزل کی جانب سفر میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ مجھے اس عظیم قوم کی خدمت کرنے اور دنیا کی شاندار ترین فوج کی چھ برس تک کمان کرنے کی عزت ملی اور میں اس خدمت کو بجا لانے میں اپنی بہترین صلاحیتوں اور خلوص کو بروئے کار لایا۔ اب یہ دوسروں کیلئے موقع ہے کہ بانیانِ پاکستان کے خوابوں کے مطابق وہ پاکستان کو خوشحال‘ مضبوط اور جمہوری ملک بنانے کا عمل آگے بڑھا سکیں۔ میری مدت ملازمت 29 نومبر 2013ءکو ختم ہو جائیگی جو میری ریٹائرمنٹ کا دن ہے جبکہ میں اپنی آئینی مدت پوری کر چکا ہوں۔ بی بی سی کے مطابق جنرل کیانی نے ان اطلاعات کو مسترد کر دیا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہش مند ہیں۔ آئین کے مطابق نئے آرمی چیف کا تقرر ہو گا۔
بانی¿ پاکستان قائداعظم کی زیر قیادت ہندوستان کے مسلمانوں کی پرامن تحریک کے نتیجہ میں 14 اگست 1947ءکو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہ ایک جمہوری عمل کا نتیجہ تھا جس کے ممکنہ سسٹم کیلئے بھی علامہ اقبال نے اپنے خطبہ¿ الہ آباد اور قائداعظم نے اپنی مختلف تقاریر میں پیرامیٹرز متعین کر دیئے تھے۔ اسکی روشنی میں مملکت خداداد کو جدید اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی ریاست کے سانچے میں ڈھلنا تھا۔ اگر قائداعظم مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے تو دستور پاکستان کی شکل میں اس نوتشکیل شدہ مملکت کے سسٹم کا ڈھانچہ بھی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو جاتا مگر قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی قائداعظم کے انتقال کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور مفاد پرست سیاست دانوں نے باہم گٹھ جوڑ کرلیا چنانچہ یکے بعد دیگرے حکومتوں کی تبدیلی کے بعد 1956ءکا پارلیمانی جمہوری آئین مرتب ہوا تو اس آئین کو سبوتاژ کرنے کیلئے اسکی تشکیل کے دو سال بعد ہی جنرل ایوب نے شب خون مار کر اقتدار پر ماورائے آئین تسلط جمالیا۔ یہی وہ بدنصیب دن تھا جب ملک میں فوجی آمریتوں کا خناس ابھر کر سامنے آیا اور بدقسمتی سے اس وقت کے چیف جسٹس محمدمنیر نے بھی نظریہ ضرورت کی اختراع نکال کر جرنیلی آمریتوں کو آئینی جواز فراہم کرنے کا راستہ دکھایا۔ چنانچہ جنرل ایوب کے بعد جنرل یحیٰی‘ جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی بطور آرمی چیف بندوق کے زور پر جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا اور اس طرح قیام پاکستان کے اصل مقاصد سے ہٹ کر وطن عزیز کے 34 برس جرنیلی آمریتوں کی بھینٹ چڑھا کر ضائع کر دیئے گئے۔ 2007ءوہ سال ہے جب عدلیہ میں جرنیلی آمریت کا خناس نکالنے کی سوچ نے جنم لیا جس کا باعث جنرل مشرف کا وہ اقدام بنا جس کے تحت انہوں نے چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کو اپنی باوردی ٹیم کے روبرو طلب کرکے ان سے استعفٰی مانگا اور انکے انکار کے بعد انہیں معطل کرکے ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا‘ یہی وہ گھڑی تھی جس سے جرنیلی آمریت کے خناس کو دفن کرنے کا راستہ نکلا اور پھر وکلاءاور سول سوسائٹی کی تحریک کے نتیجہ میں نہ صرف چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اپنے منصب پر بحال ہوئے بلکہ جنرل مشرف بھی وردی اتار کر اپنی پپٹ اسمبلی سے خود کو دوبارہ صدر منتخب کرانے پر مجبور ہوئے جبکہ وردی اترنے کے بعد انکی جرنیلی آمریت کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی اور اپنے مواخذے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد وہ منتخب ایوان کے موڈ کو بھانپ کر صدر کے منصب سے مستعفی ہونے اور اقتدار کے ایوانوں سے باہر جانے پر مجبور ہوئے۔ مشرف کی آرمی چیف کے منصب سے علیحدگی کے بعد 2007ءمیں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بطور آرمی چیف تقرر عمل میں آیا تو جرنیلی آمریتوں کی ماضی کی تاریخ اور اس وقت کی ملکی سیاسی صورتحال کی بنیاد پر قوم کے ذہنوں میں وسوسے موجود تھے کہ جرنیلی شب خون کی روایت کہیں پھر نہ دہرادی جائے۔ تاہم یہ ملک کی خوش قسمتی ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے افواج پاکستان کی کمان سنبھالتے ہی اپنے ادارے کیلئے ایک سرکلر جاری کرکے قوم کے ذہنوں میں پیدا ہونیوالے وسوسے خود ہی ختم کر دیئے۔ اس سرکلر کے ذریعے انہوں نے افواج پاکستان کو پابند کیا کہ وہ سول معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرینگی اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض آئین کے تقاضوں کے عین مطابق ادا کرینگی۔ انہوں نے اسکے ساتھ ہی سول محکموں اور اداروں میں ڈپیوٹیشن پر گئے فوجی افسران کو بھی افواج پاکستان میں واپس بلوالیا۔
18 فروری 2008ءکے انتخابات کے انعقاد سے قبل سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی کے انتخابی جلسے کے بعد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھیں تو ملک میں پیدا ہونیوالی افراتفری کی صورتحال ماضی کی روایات کے مطابق جرنیلی شب خون کیلئے نادر موقع بن سکتی تھی مگر جنرل کیانی نے فوج کی کمان سنبھالتے ہی جمہوری حکمرانی کی پاسداری کا جو عہد کیا تھا‘ وہ اس پر کاربند رہے۔ چنانچہ انتخابی عمل کے نتیجہ میں عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے اپنی ماضی کی روایات کے عین مطابق بے ضابطگیوں‘ من مانیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی انتہاءکرتے ہوئے جمہوریت کا مردہ خراب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس دور حکومت میں متعدد ایسے مواقع پیدا ہوئے جب جرنیلی شب خون کے تحت جمہوریت کی بساط الٹائی جاتی تو اس اقدام کو عوامی پذیرائی بھی حاصل ہو جاتی مگر جنرل کیانی جمہوری نظام کو چلنے دینے اور مستحکم بنانے کے عہد پر کاربند رہے اور خوش قسمتی سے جمہوریت کیلئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور اپوزیشن لیڈر میاں نوازشریف کے مصمم عہد کی بنیاد پر بھی کسی طالع آزمائی کیلئے ماضی جیسی محلاتی سازشوں کی فضا استوار نہ ہو سکی‘ نتیجتاً ملک میں پہلی بار منتخب جمہوری نظام نے اپنی پانچ سال کی آئینی میعاد پوری کی جبکہ نئے انتخابات سے پہلے بھی جمہوریت مخالف عناصر نے انتخابی پراسس میں جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے تمام جتن کرلئے مگر آرمی چیف جنرل کیانی کے جمہوریت کے استحکام کیلئے عزم کے اعادے کے باعث انکی کوئی دال نہ گل سکی اور 11 مئی 2013ءکے انتخابات کے نتیجہ میں عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت تشکیل پا گئی۔
پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جنرل کیانی کی بطور آرمی چیف تین سال کی ٹرم پوری ہونے پر فروغ‘ استحکام جمہوریت کیلئے انکی خدمات کے پیش نظر اور دہشت گردی کی جنگ میں انکی زیر کمان سکیورٹی فورسز کے کردار کے تناظر میں انہیں مزید تین سال کیلئے آرمی چیف کے منصب پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ اس وقت بھی انکی جانب سے کوئی عندیہ نہیں ملا تھا کہ وہ اپنے منصب کی میعاد میں توسیع کے خواہش مند ہیں۔ تاہم موجودہ جمہوری حکومت کی تشکیل کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے میڈیا پر غیرضروری طور پر آرمی چیف کے حوالے سے بحث مباحثے اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا جس پر حکومتی حلقوں کی جانب سے ازخود یہ تاثر دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ جنرل کیانی کو آرمی چیف کے منصب پر مزید توسیع نہیں دی جائیگی جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے جنرل کیانی کو مزید توسیع دینے کے حق میں بھی بحث مباحثہ ہوتا نظر آیا۔ اس صورتحال میں یقیناً ایسی فضا بن سکتی تھی جو حکومتی اور عسکری قیادتوں کے درمیان کسی غلط فہمی کے پروان چڑھنے کی بنیاد بنتی چنانچہ جنرل کیانی نے اپنے منصب کی توسیع شدہ میعاد پوری ہونے سے دو ماہ قبل ہی واشگاف الفاظ میں آرمی چیف کے منصب کیلئے مزید توسیع نہ لینے کا اعلان کرکے جمہوریت مخالفت سازشی عناصر کے عزائم پر اوس ڈال دی ہے‘ اس طرح اب افواہ ساز فیکٹریوں کے پاس جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کیلئے افواہوں کو پر لگانے کا کوئی مواد موجود نہیں رہا۔ جنرل کیانی نے صرف آرمی چیف کیلئے ہی مزید توسیع نہ لینے کا اعلان نہیں کیا بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی دوسرا منصب قبول نہ کرنے کا بھی واضح عندیہ دے دیا ہے جبکہ انہوں نے ساتھ ہی ساتھ افواج پاکستان کی آنیوالی قیادتوں کیلئے بھی جمہوریت کو مستحکم بنانے میں انکے کردار کا بھی واضح لائحہ عمل طے کر دیا ہے۔ انہوں نے عسکری ہی نہیں‘ سیاسی قیادتوں سے بھی اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ بانیانِ پاکستان کے خوابوں کے مطابق پاکستان کو خوشحال‘ مضبوط اور جمہوری ملک بنائیں جو جمہوریت کے فروغ و استحکام کیلئے انکے عزم کی ٹھوس دلیل ہے۔ اگر ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتیں جنرل کیانی کی اس سوچ کے عین مطابق اپنے اپنے آئینی اختیارات کے فریم ورک میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں جمہوری نظام مستحکم نہ ہو اور اسکی سالمیت کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے عہدہ برا¿ ہونے کا کوئی راستہ نہ نکلے۔ جنرل کیانی نے افواج پاکستان کو جمہوریت کا معاون بنا کر اور سسٹم کیخلاف کسی سازش کو پنپنے نہ دے کر بلاشبہ ایک شاندار اور جاندار نئی روایت قائم کی ہے جس پر وہ پوری قوم کی جانب سے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ افواج پاکستان کی نئی قیادت بھی انکے نقش قدم پر چل کر بانیانِ پاکستان کے وضع کردہ قیام پاکستان کے مقاصد کے مطابق پاکستان کی ترقی و استحکام میں اپنا کردار بروئے کار لائے گی اور جنرل کیانی ہی کی طرح سسٹم کے استحکام کے ضامن بنے گی۔