جنرل کیانی جانتے ہیں قبر مٹی کی ہوتی ہے
اگلے جہان جانے والے شہیدوں کو نہ آگ کے حوالے کرتے ہیں نہ برف کے حوالے کرتے ہیں۔ ہم انہیں مٹی کے حوالے کرتے ہیں۔ گیاری میں برف کے تودے کے نیچے آکے دب جانے والوں کیلئے اپنے دل و جاں کی پوری ایمانی قوت والے سپہ سالار جنرل کیانی نے ارادہ کیا تھا کہ وہ اپنے سب سپاہیوں کو برف زادوں سے نکال کے گھر کے قبرستانوں میں پہنچائیں گے۔ اور وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ ہمیں اپنے وطن کی مٹی بہت عزیز ہے۔ وطن کی مٹی گواہ رہنا کہ سچے جرنیل نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ قبر کی مٹی بھی گواہ بن گئی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ قبر اور قلب میں کیا فرق ہے؟ میرا ایمان کہتا ہے کہ کوئی فرق نہیں۔
باہو ایتھے اوہو جیندے قبر جیناں دی جیوے ھو
برف کا تودہ گرا تھا۔ مجھے تب ہی محسوس ہو گیا تھا کہ تودہ گرایا گیا ہے۔ تب اپنی خاموشیوں کے مورچے میں رہنے والے جنرل کیانی کے چہرے پر سنجیدگی کے پہرے کے گہرے ہونے نے بتا دیا تھا کہ یہ کوئی سازشی منصوبہ بندی ہے۔ برف کا تودہ خود بخود گرا ہوتا تو چند منٹ پہلے گرا ہوتا۔ خود گرا ہوتا تو چند سیکنڈ بعد میں گرا ہوتا۔ یہ بڑے حوصلوں والے جفاکش سپاہیوں کے سر پر کیوں گرا۔ اسے تو ان کے قدموں میں گرنا چاہئے تھا۔ یہ دشمن کی کارروائی ہے۔ وہ برفیلی ہوائیں جو دشمن کے لشکر کی طرف سے آتی ہیں۔ وہ بھی دشمن ہوتی ہیں کبھی کبھی یہ گولیوں اور گولوں سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔
بھارت دراصل پاکستان اور چین کا رابطہ اور راستہ روکنا چاہتا ہے۔ امریکہ بھی یہی چاہتا ہے مگر وہ یہ کام بھارت سے کروا رہا ہے۔ جس طرح روس کو افغانستان سے نکلنے کا راستہ پاکستانی فوج کی طرف سے دکھایا گیا تھا۔ یہ کام کسی بڑے مقصد کے لئے پاک فوج کی قیادت اور تربیت میں مجاہدین نے کیا تھا مگر اس کے ذریعے امریکہ اپنا مقصد پورا کر رہا ہے۔ ہم بھارت دشمنی کے حق میں نہیں ہیں مگر ہمیں بھارت دوستی پر بھی اعتبار نہیں ہے۔ بھارت یہ کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی کے درمیان کوئی دیوار بنائی جائے مگر دیوار چین کے مقابلے کی کوئی دیوار بنانا ممکن نہیں ہے۔ دیوار جاں صرف ایمان والے بنا سکتے ہیں۔ نواز شریف اس پر غور فرمائیں۔ تجارت دوستوں کے درمیان ہو سکتی ہے۔ اس میں فائدہ بھی ٹھیک ہے مگر عزت اور عزت نفس بھی سلامت رہنا چاہئے۔ نواز شریف گوادرسے کاشغر تک موٹروے بنانا چاہتے ہیں اس کے لئے رکاوٹ بھارت اور امریکہ ہوں گے۔ جو ایران کے ساتھ گیس کا معاہدہ نہیں ہونے دیتے۔ ان پر کیسا بھروسہ؟ بھارت اور امریکہ کے لئے شاہراہ ریشم بھی ایسا راستہ ہے کہ بھارتی اور امریکی یہاں ڈگمانا چاہتے ہیں۔ ان کے منصوبے اس عظیم سڑک کے لئے بھی بھیانک ہیں۔
نواز شریف کے محسن جنرل ضیاءنے کہا تھا کہ سیاچن پر تو گھاس بھی نہیں اگتی۔ نواز شریف نے کہا۔ اتنی اونچائی پر فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے یہاں بلندی کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ دشمن کے آگے جھکنے والے سر بلند نہیں ہو سکتے۔ اس حوالے سے بھارتی فوج کے سربراہ کا جواب ہی کافی ہے ”اگر سیاچن سے پاکستانی فوج واپس چلی آئے تو پھر بھی ہم وہاں رہیں گے“ جانباز پاکستانی سپاہیوں کے لئے یہ جملہ ایک حملہ ہے۔ اس جملے میں کیا راز ہے کیا سازش ہے؟ بھارت کا مقصد اور امریکہ کا ٹارگٹ ملتے جلتے ہیں۔ امریکہ نے صدر زرداری سے گلگت بلتستان کا صوبہ بنوایا۔ جبکہ اس کے لئے نہ سیاست نہ تحریک نہ کوئی مطالبہ؟ حافظ حسین احمد نے کہا تھاکہ زرداری صاحب کو اس خدمت کے لئے کروڑوں ڈالر ملے ہیں۔ صوبہ گلگت بلتستان کیلئے کسی سیاستدان نے کوئی اعتراض نہ کیا سب وہاں ہونے والے الیکشن میں زور شور سے شریک ہوئے۔ امریکی ایجنڈے پر سب پاکستانی سیاستدان متفق ہیں۔ صرف کشمیری رہنما¶ں نے شور مچایا۔ چین نے اس واقعے کو سانحے کی طرح خاموشی سے دیکھا۔ اس کے اثرات ہماری کشمیری پالیسی کے لئے بھی بہت برے ہوں گے مگر ہماری تو کشمیر پالیسی بدلتی رہتی ہے۔ ہمارے دریا¶ں اور پانیوں پر ڈاکہ بھی کشمیر ہی میں ڈالا جا رہا ہے۔ قائداعظم کے اس فرمان کو مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی بار بار دہراتے دیتے ہیں۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔
میں اسی لئے کہتا ہوں کہ گیاری کا حادثہ ایک منصوبہ تھا جس میں ہمارے 140 سپاہی شہید ہوئے ہم انہیں شہید کہتے ہیں تو پھر وہ میدان جنگ میں کام آئے ہیں۔ ہمارے لئے دنیا کے بلند ترین بھارت کے لئے سب سے اونچے میدان جنگ کا نام سیاچن ہے۔ حیرت ہے کہ وہاں ہمارا کوئی بہادر سپاہی سردی سے نہیں مرتا۔ گیاری واقعے کو حادثہ نہ کہو۔ یہ شہادت کے جذبے کی توہین ہے۔ میں نے یہ نہیں مانا تھا کہ میرے میانوالی کے بہادر سپاہی جنرل ثناءاللہ خان نیازی بارودی سرنگ پھٹنے سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ میں نے کالم میں لکھا تھا کہ سیٹلائٹ سے جنرل کی نقل و حرکت کی تصویر بنائی گئی اور اللہ نے ان کے حق میں شہادت کی تقدیر لکھ دی۔ گیاری میں بھی ایسا ہی کام ہوا ہے بھارت کی معاونت بروقت امریکہ کرتا ہے جنرل کیانی اپنے شہیدوں کے پاس گیاری پہنچے۔ پھر اب تک چین سے نہیں بیٹھے۔ انہیں معلوم ہے کہ قبر برف کی نہیں ہوتی۔ مٹی کی ہوتی ہے۔ 140 میں سے 133 جسد خاکی برف کے منہ سے نکال لئے گئے اور مٹی کی آنکھوں میں رکھ دئیے گئے ہیں۔ ”ہم اپنے شہیدوں کو فراموش نہیں کرتے۔“ ایک شہید کی ماں روتی تھی اور کہتی تھی میرا بیٹا شہید ہے اسے برف میں سردی لگتی ہو گی ایک سال میں بھی شہدا تازہ پھول کی طرح مہک رہے ہیں گھر والوں اور بستی والوں نے دیکھا اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں۔
قبر کسی آدمی کی زندگی کا نشان ہے۔ قبر ہوتی ہی مٹی کی ہے۔ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی ہوتی ہے۔ میرا تایا بابا مظفر خان زمیندار تھا مگر کھیتوں میں کام کرنے والوں کے ساتھ کام کرتا تھا۔ ایک بار جنوری کی رات زمین کو پانی لگاتے ہوئے ایک ساتھی کو ٹھنڈ لگ گئی بابا مظفر خان نے مٹی کا گڑھا کھودا اور اس میں ساتھی کو ڈال دیا۔ اسے قرار آگیا۔ وہ گڑھا بالکل قبر کی طرح تھا۔
سپاہی مر کر بھی نہیں مرتا۔ وہ بستر مرگ کو میدان جنگ سمجھتا ہے۔ شہادت کی آرزو بھی شہادت ہے۔ جو مادر وطن کے لئے جان دینے کی امید اور کوشش میں سرشار رہتا ہے تو پھر ریٹائرمنٹ کیسی؟ اس کا تعلق جنرل کیانی کے ریٹائرمنٹ کے اعلان سے نہیں ہے؟ نجانے قبر کیسی محبوب لگتی ہے۔ انسان کا آخری ٹھکانہ‘ آخری آرام گاہ کوئی آدمی دنیا کے کسی کونے میں مر جاتے تو کہتے ہیں اسے گھر لے جا¶۔ اپنے پیاروں عزیزوں ساتھیوں کے پاس‘ مر جانے والے کا جسد خاکی نہ ملے تو رشتہ دار بے قرار رہتے ہیں۔ اسے قبر میں ڈالنے کے بعد مطمئن ہوتے ہیں کہ اب ہم نے اپنے پیارے کو اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔
جا اوئے یار حوالے ربدے میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گے
عید تو اس دن ہوئی جب شہادت ملی اور پھر ہمیشہ کے میلے۔ لوگ شہید کی قبر پر جاتے ہیں۔ وہاں پھول رکھتے ہیں۔ رفاقت کی خوشبو ان تک بہت پہنچتی ہے۔ میرے آقا و مولا رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لوگ نہیں مرتے مگر اس وقت جب ان کے دوست رشتہ دار ان کی قبر پر آنا چھوڑ دیتے ہیں۔ قبر زندہ ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ فلاں کی قبر ہے۔ قبرستان کے شہر میں آ¶ تو کہتے ہیں کہ یہ محل اسی کا تھا۔ کاش دولت والے اور حکومت والے جان سکتے کہ ”تھا اور ہے“ میں کیا فرق ہے۔
جنرل کیانی کا شکریہ سب ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے گیاری کے برف زاروں سے اپنے شہیدوں کو گھر کے قبرستانوں میں لے آنے کا اہتمام کیا۔ وہاں وہ سوئے ہوئے تھے۔ یہاں زندہ ہو گئے ہیں۔ میرے آقا و مولا نے فرمایا۔ لوگ سوئے ہوئے ہیں مریں گے تو جاگیں گے۔ آدمی دنیا میں مرتا ہے قبر میں جا کے زندہ ہو جاتا ہے“ جنرل کیانی نے اپنے شہیدوں کو قبر دلا دی ہے۔ یہ بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے آخری ذمہ داری بھی نبھا دی ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ ابھی کوئی ذمہ داری باقی ہے۔
سینئر کالم نگار اور سماجی شخصیت کرنل اکرام اللہ نے لکھا ہے کہ اس موقعے پر پارلیمنٹ حکومت اور قوم نے بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ قوم نے ہمیشہ اپنے شہیدوں کے ساتھ زندہ رہنے کا آرزو کی ہے۔ شہید ایک بڑی زندگی کے مالک ہوتے ہیں۔