مصر: 8 فوجی‘ پولیس اہلکار قتل‘ ہلاکتیں 53 ہو گئیں: امریکہ نے شدت پسند کمانڈر جمال کو دہشت گرد قرار دیدیا
قاہرہ+ واشنگٹن (این این آئی+ بی بی سی+ نوائے وقت رپورٹ) مصر میں معزول صدر مرسی کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں اور حملوں میں ہلاکتیں 53ہو گئیں جبکہ 240 میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔ سویز شہر میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 6فوجیوں کو قتل کر دیا، دیگر واقعات میں بھی 2فوجی اور پولیس اہلکار مارے گئے۔ محمد مرسی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مرسی کو ہٹایا جانا ایک فوجی بغاوت ہے۔ مصری حکومت نے فوجی سازوسامان کی ایک بڑی نمائش لگائی جس میں لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر تحریر سکوائر کے اوپر ایک خاص ترتیب سے پرواز کر رہے تھے۔ وہاں موجود ہجوم نے پرجوش جہازوں کے پریڈ کا جواب دیا۔ بعض لوگوں نے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔قاہرہ میں بی بی سی کے نامہ نگار کوئنٹین سومرو ویلے کا کہنا ہے کہ محمد مرسی کے ہزاروں کی تعداد میں حامی گلیوں میں نکل آئے اور تحریر سکوائر کی جانب جانے کی کوشش کی اور جنرل السیسی کو قاتل پکارتے رہے۔ سکیورٹی فورسز نے ان کو روکنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا اور ہوائی فائرنگ کی۔ ہمارے نامہ نگار کے مطابق ضلع دوکی میں بعض مظاہرین گولیوں کا نشانہ بنے جس کے جواب میں مظاہرین نے پولیس اور فوج پر پتھراﺅ کیا۔ ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں عبوری وزیراعظم نے مصری عوام پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ملک ایک ”نازک دور“ سے گزر رہا جس کے لئے مصری عوام کو ایک ساتھ کھڑے ہونا اور مستقبل کے بارے میں پرامید رہنا چاہئے۔ ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے مصر کے شدت پسند کمانڈر محمد جمال کو دہشت گرد قرار دیکر بلیک لسٹ کر دیا۔ محمد جمال پر القاعدہ سے تعلق، مصر اور لیبیا میں القاعدہ کے ٹریننگ کیمپس چلانے کا الزام ہے۔