موت کا ایک دن مقرر ہے، خوفزدہ نہیں: ملالہ
برمنگھم (آئی این پی + اے ایف پی) ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ طالبان کے قاتلانہ حملے نے انہیں کسی قسم کے خوف یا پریشانی میں مبتلا نہیں کیا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہر انسان کی موت کا دن مقرر ہے اسی لئے وہ بے خوف و خطر وہی کریں گی جس پر ان کا دل مطمئن ہے۔ ”آئی ایم ملالہ“ نامی سوانح عمری میں ملالہ نے سوات میں گولیوں کی گھن گرج میں گزارے دن، طالبان کے قاتلانہ حملے اور اس کے بعد برمنگھم کے نئے طرز زندگی میں ڈھلنے کی کوششوں کو بھی قلم بند کیا ہے۔ لکھا ہے 9 اکتوبر 2012 کے دن طالبان نے ان کے سر میں 3 گولیاں ماریں اور ہسپتال منتقل کئے جانے تک ان کے پورے بال اور ان کی دوست منیبہ کے کپڑے خون سے بھر چکے تھے۔ ان پر قاتلانہ حملے سے قبل انہیں کئی بار جان سے مار دینے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں، اور وہ ڈر اور خوف میں مبتلا رات گئے تک جاگتی رہتیں، ہر دروازہ اور کھڑکی کو کئی کئی بار چیک کرتیں اور سب کے سو جانے کے بعد خود سونے کو جاتیں۔ طالبان لوگوں کو سر عام کوڑے مارتے، خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتے، طالبان کی سوات میں موجودگی کے دوران لوگ عام تفریح سے محروم تھے، لوگوں کے ٹی وی دیکھنے اور موسیقی سننے پر بھی پابندی عائد تھی، میرے والد کے دل میں 1979 میں روس کے حملے کے بعد افغانستان جا کر جہاد میں حصہ لینے کی آرزو تھی، سوات میں ایک نیا سکول قائم کرنے کے لئے جدوجہد کی اور طالبان کے ظلم و جبر کے خلاف بھی کھل کر آواز بلند کی۔ پہلی مرتبہ برمنگھم میں کم کپڑے زیب تن کی ہوئی لڑکیوں کو بے باکی سے باہر جاتے ہوئے دیکھ کر انہیں کافی خوف محسوس ہوا اور وہاں کی کافی شاپس میں لڑکے اور لڑکیوں کاآزادانہ ماحول میں بیٹھ کر بات کرنا بھی ان کے لئے حیران کن تھا۔ برمنگھم میں دوست بنانے کے لئے کافی محنت کرنا پڑی اور ابھی بھی وہ انٹرنیٹ پر سکائپ کے ذریعے سوات میں اپنی دوستوں سے گھنٹوں بات کرتی ہیں۔ کینیڈین پاپ سٹار جسٹن بیبر کی فین ہیں اور ٹوائلائٹ سیریز کے ناولز پڑھنا پسند کرتی ہیں۔ ایک انٹرویو میں کہا جس لڑکے نے مارنے کی کوشش کی اس سے بدلہ نہیں لوں گی، اس کو سوئی کے برابر بھی نقصان پہنچانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتی، امن اور معاف کرنے پر یقین رکھتی ہوں، 12سال کی عمر میں میرے والد نے بھی جہادی بننے کی کوشش کی، شاہد آفریدی اور شین واٹسن پسندیدہ کھلاڑی ہیں، میرے ماں باپ نے لو میرج کی تھی ، اصل ملالہ کہیں کھو گئی ہے، عالمی شہرت پانے والی ملالہ وہ ہے جسے طالبان نے گولی ماری۔ ایک انٹرویو میں کہاکہ کسی کو بھی جان سے مارنا مشکل ہے شاید اسی لیے ان پر گولی چلانے والے کے ہاتھ کانپے ہوں۔ گولی چلانے والا لڑکا 20 سال کا تھا۔ بندوق سے کسی کی جان لینا مشکل ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے اس کے ہاتھ کانپے ہوں۔ اپنی کتاب میں ملالہ نے اس وقت کا ذکر کیا جب طالبان رہنما محمد صوفی ان کے علاقے میں نوجوانوں کی جہادی بھرتی کے لیے آئے۔ ملالہ نے لکھا کہ ان کے والد ضیاءالدین اس وقت 12 سال کے تھے جب انہوں نے جہاد کی تیاری کی اور شہادت کی دعائیں مانگنا شروع کیں لیکن ایک رشتے دار کے ساتھ دینے پر وہ مکمل برین واشنگ سے بچ گئے۔