آرمی چیف کا اعلان جمہوریت کے استحکام کی ضمانت ہے
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہُوا ہے کہ حکومت کے نوٹیفکیشن سے قبل پاک فوج کے سربراہ نے از خود اپنی ریٹائرمنٹ کا ایک تاریخی اور پرُوقار انداز میں اپنی ذمہ داریوں کی آئینی مدت مکمل ہونے سے تقریباً دو ماہ قبل ہی اعلا ن کر دیا ہے انہوں نے ایسا کیوں فیصلہ کیا ہے اس کی جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وجوہات بیان کرتے ہوئے ان کے بارے میں گردِش کرتی ہوئی اندرون و بیرون ملک افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے جس کا بعد میں ذکر کروں گا۔ عجیب حسن اتفاق ہے کہ 6 اکتوبر اتوار کے روز جس وقت حیدر آباد کے قریب صحرا میں جاری جنگی مشقوں ”عزِم نو- 4“ کے معائنہ کے دوران چیف آف آرمی سٹاف نے 29 نومبر کو اپنی ذمہ داریوں سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا، اُسی روز لاہور میں برادرم سعید آسی کی تازہ کتاب ”کب راج کریگی خلق خدا“ کا قائداعظم لائبریری لاہور میں افتتاح کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و براڈ کاسٹنگ جناب پرویز رشید نے بھی افواج پاکستان میں اعلیٰ سطح کی تعیناتیوں کے بارے میں انٹرنیشنل میڈیا اور مقامی ذرائع ابلاغ کے پراپیگنڈا کو محض افواہیں قرار دیتے ہوئے اخبار نویسوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ وزیراعظم نواز شریف مناسب موقع خود اس بارے میں اعلان فرمائیں گے ان کا اشارہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل شمیم وائیں اور چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے جانشینوں کی تعیناتی کے بارے میں تھا۔ ایسے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر پر بین الاقوامی اور مقامی سطح پر منفی اثر پیدا ہوتا ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر وزارتوں یا حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان اختلافات کی خبروں سے حکومت کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ مثلا سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے چئیرمین حاجی عدیل نے دفتر خارجہ میں طارق فاطمی کے اپنا علیحدہ گروپ تشکیل دینے کو جو رنگ دینے کی کوشش کی۔ 7 اکتوبر2013ءبروز پیر کے اخبارات میں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے ایسی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امریکی صدر اوباما اور وزیراعظم نواز شریف کی نیویارک میں ملاقات کے ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا معاملہ احساس ہے اس لئے اس پر بات نہیں کریں گے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو جن اندرونی و بیرونی چیلینجز کا سامنا ہے اُن کے حل کرنے کے لئے پاک فوج حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے ”29 نومبر 2013 کو اُن کی مدت ملازمت ختم ہو جائے گی“ میں اپنی آئینی مدت پوری کر چکا ہوں پاکستان کی مسلح افواج جمہوری نظام کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہیں۔ آئین اور عوام کی رائے نے جڑیں پکڑی ہیں میرے خیال میں ادارے اور روایات شخصیات سے زیادہ اہم ہیں۔ مسلح افواج مُلک میں جمہوریت کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔ گذشتہ 6 برس کے دوران مُجھ پر قوم اور حکومت کے اعتماد کرنے پر سیاسی قیادت اور عوام کا شکرگزار ہوں۔ جنرل کیانی نے ان اطلاعات کو مسترد کر دیا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہشمند ہیں، اُنہوں نے کہہ کے اُنہیں 6 برس تک دُنیا کی بہترین فوج کی قیادت کا موقع ملا اور اب دوسروں کی باری ہے کہ وہ پاکستان کو حقیقی طور پر جمہوری، خوشحال اور ُپرامن مُلک بنانے کا مشن آگے بڑھائیں۔
کچھ عرصہ سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر افواج پاکستان کے خلاف "Army Bashing" کا مربوط پراپیگنڈہ مختلف سطح پر جاری ہے۔ جس کا مقصد افواج پاکستان اور اس کی قیادت کے امیج کو عوام کی نظروں میں گرا کر مجروح کرنا اور اس بہادر فوج کے مورال کو کمزور کر کے نہ صرف دفاع پاکستان کو گزند پہنچانا بلکہ پاکستان کے نیوکلیئر اور میزائل اثاثوں کو بے اثر اور نیوٹرل بنا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وجود اور قومی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرنا ہے۔ جمہوری عمل کو استحکام دینے کیلئے مُلک کے تمام جمہوری قوتوں کو بلا استثنا قائداعظم کے فرمان کے مطابق ایمان، اتحاد اور تنظیم کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دفاع وطن کے لیے اپنے تمام وسائل اور ہر قسم کے ”گھوڑوں“ یعنی جنگی وسائل میں یکجہتی پیدا کرنا لازم ہے جس کا اظہار جنرل کیانی نے بانیان قوم کے وژن کو اپنے کردار اور عملی جدوجہد سے پایا تکمیل تک پہنچانے کا عزم دہرایا ہے۔
پاکستان فوج کی تاریخ میں جنرل وحید کاکڑ پہلے اور واحد چیف آف آرمی سٹاف ہیں جنہوں نے وزیراعظم شہید بے نظیر بھٹو کی کئی سنجیدہ پیشکش کے باوجود اپنے عہدہ میں توسیع کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت اس بنا پر کر لی تھی کہ جمہوری اداروں کو استحکام دینے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف کے آئینی دورانیہ میں توسیع پیچیدگیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ میں اس کا ذاتی شاہد ہوں کیونکہ شہید بی بی نے میرے جنرل وحید کاکڑ کے ساتھ تعلقات کی بنا پر یہ حساس ذمہ داری مُجھے سونپی گئی تھی چنانچہ میں نے تقریبا نصف گھنٹہ سے اُوپر جنرل وحید کاکڑ سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی اور اُس وقت کے ڈی جی ایم آئی جنرل علی قُلی خان اُس ملاقات میں شریک ہوئے تھے لیکن جنرل وحید کاکڑ کا مو¿قف نہایت واضح اور غیر متزلزل تھا۔ راقم کو آج جنرل اشفاق پرویز کیانی کے تاریخی روح پرور بیان میں بھی جنرل وحید کاکڑ کے احساسات اور وژن کی تصویر نظر آتی ہے۔ راقم کے مطابق تحریک طالبان کا آج 7 اکتوبر 2013ءکو شائع ہونے والا بیان وزیراعظم کی فوری توجہ اور حتمی فیصلے کا مستحق ”مذاکرات کے خواہشمند ہیں لیکن موجودہ سیکولر پاکستانی آئین کے تحت ایسا کبھی نہیں کریں گے“ جبکہ پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور قرآن و سُنت کے خلاف کوئی قانون یہاں بن سکتا ہے نہ نافذ ہو سکتا ہے۔