پنج پیارے
چکری اگر ریاست ہوتی تو چودھری نثار اس کے شہزادے ہوتے کم از کم میاں نواز شریف تو اب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ سیاسی محققین، تجزیہ نگاروں، نامہ نگاروں نے پورا زور لگا لیا لیکن اب تک وہ اس حقیقت کی تہ تک نہیں پہنچ پائے کہ چودھری نثار اور میاں نواز شریف کے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اگر متذکرہ اشخاص پنج پیارے تھے تو یہ راج دلارے ہیں۔ جب پرویز مشرف برطرفی کا پروانہ جاری ہوا تو ان کے بھائی صاحب جو اس وقت ڈیفنس سیکرٹری تھے، ان کا رول کچھ اتنا مثبت نہ تھا۔ نواز شریف کے زوال کے بعد ا سکے قریبی ساتھیوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن یہ گھر میں ہی اسیری کے مزے لوٹتے رہے۔ نہایت ادب کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ نہ تو چودھری نثار کوئی بہت بڑے دانشور ہیں، نہ نوابزادہ نصراللہ کی سی سیاسی بصیرت اور بصارت رکھتے ہیں، نہ ان میں چودھری ظہور الٰہی جیسی استقامت ہے باایں ہمہ یہ نہ صرف مسلم لیگی لیڈر شپ کی آنکھ کے تارے ہیں بلکہ وزیروں کے بھی وزیر ہیں۔ وزراءارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کو ان سے ملاقات کے لئے باقاعدہ ٹائم لینا پڑتا ہے اور وہ ان کی خوشنودی کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ گو اب اتنے جوان نہیں رہے لیکن انہیں اینگری ینگ مین کہا جا سکتا ہے۔ جب بولتے ہیں اسمبلی میں گرجتے اور برستے ہیں، پریس کانفرنس کرتے ہیں تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ بطور اپوزیشن لیڈر خاصے متاثر کن تھے۔ اب جبکہ وزارت داخلہ کا بوجھ ان کے کندھوں پر آن پڑا ہے تو ان کو اندازہ ہوا ہو گا کہ ساحل پر کھڑے ہو کر تبصرہ کرنا اور بات ہے اور بیچ منجھدار دلائل دینا کارداد ہے۔ شت گردی کی وارداتیں جس تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہو رہی ہیں انہوں نے پیپلز پارٹی کی نااہلی بے حسی اور بے بسی کو پس پردہ ڈال دیا ہے۔ Playing to the Gallery کا Gimmick آج کل کچھ اتنا موثر نہیں ہے۔ انہوں نے آتے ہی سوائے وزیراعظم، چیف جسٹس کے باقی سب کی سیکورٹی واپس لینے کا حکم صادر فرمایا۔ دوسرے دن سندھ ہائی کورٹ کے جج پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ معروضی حالات میں اس قسم کے شوشے چھوڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ وزیراعظم کو استثنا کس کھاتے میں دیا گیا ہے۔ انہوں نے سویڈن کے مقتول وزیراعظم کا واقعہ تو ضرور پڑھا ہو گا جس کے قتل کے بعد بھی سویڈش پارلیمنٹ نے وزیراعظم کو سکیورٹی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اسلام آباد میں حالیہ ڈرامہ نے سکیورٹی اداروں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ زمرد خان نے بہادری کا مظاہرہ کیا یا اس سے احمقانہ فعل سرزد ہوا اس نے بلاشبہ مسلم لیگ حکومت کی ساکھ کو متاثر کیا۔ چودھری صاحب پر دو ماہ کے قلیل عرصہ میں جو گزر رہی ہے اس پر ضرور سوچتے ہوں گے۔
بوجھ وہ آن پر پڑا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
بات وہ آن بنی ہے کہ بنائے نہ بنے
پانچواں پیادہ خوشاب کا ملک نعیم خان تھا۔ وہ نہایت سنجیدہ، باوقار اور زیرک انسان ہے۔ بدقسمتی سے شروع ہی میں ایک نہایت مہلک بیماری کا شکار ہو گیا۔ ہنوز صاحب فراش ہے۔ حیات المیسر! اللہ تعالیٰ اس کو صحت دے۔
لالیکا اور کانجو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ملک نعیم بستر علالت پر پڑا ہے۔ شیخ رشید راندہ درگاہ ہو چکا ہے۔ ان کی جگہ نئے پنج پیارے آ گئے ہیں۔ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، رانا تنویر اور پانچواں نیم دروں نیم بروں رانا ثناءاللہ۔ چھوٹے بھائی نے برادر بزرگ کو یہ تحفہ بطور خاص عنایت فرمایا ہے۔ رانا صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے شیخ رشید کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ خیبر پی کے کے وزیر اعلیٰ خٹک کو تیلی پہلوان کا خطاب دے کر انہوں کو قوم کو بڑا محظوظ کیا ہے۔ اتنا ”اچھوتا“ خیال کسی اور کو شاید نہ سوجھتا۔ خواجہ آصف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ زبان اور ہاتھ کا استعمال بیک وقت کر سکتے ہیں۔ اس کا عینی گواہ سپریم کورٹ کا بھاری بھرکم وکیل شیخ اکرم ہے۔ انہوں نے جس چابکدستی سے گردن دبوچ کر اس کا سر سپریم کورٹ کے ”پلر“ پر دے مارا تھا اس سے شیخ صاحب علاوہ ستون بھی گلنار ہو گیا۔ شیخ صاحب نے بکمال شفقت خواجہ کو معاف کر دیا۔
That which can not be cured must be endured (ختم شد)