طالبان سے مذاکرات
وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی پہلی ترجیح دہشت گردی کا خاتمہ ہے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد ملٹری آپریشن کیا جائے تو پوری قوم حکومت کیساتھ کھڑی ہو گی لیکن حکومت پوری ایمانداری کیساتھ طالبان کیساتھ مذاکرات کرے۔دریں اثناءملک کے نامور اور جید علمائے کرام و مشائخ عظام کی طرف سے جنگ بندی کی درد مندانہ اپیل پر تحریک طالبان کا ابتدائی رد عمل نہایت مناسب اور مثبت تھا لیکن ایک ہی روز بعد طالبان نے ڈرون حملے بند کرانے کی شرائط لگا کر ملک میں امن کے امکانات کو دھند لا دیا ہے۔ جہاں تک مذاکرات کا سوال ہے تو ہم اس حد تک تو اس کے قائل ہیں کہ ہر مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو سکتا ہے لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت طالبان کے کون سے گروپ سے مذاکرات کرے گی ؟ان میں ایک گروپ ایسا ہے جس کی اولین ترجیح پاک فوج پر حملے کرنا ہے۔ ایک دوسرے گروپ کی اولین ترجیح اہل تشیع کو قتل کرنا ہے ایک گروپ بریلویوں کو نشانہ بناتا ہے جبکہ ایک بے گناہ پاکستانی عوام کو قتل کرکے خوش ہوتا ہے۔ایسے گروپ بھی ہیں جو لوٹ مار پر یقین رکھتے اور اغوابرائے تاون کی وارداتیں کرتے ہیںلہذا یہ ممکن ہوگا کہ حکیم اللہ محسود ان تمام گروپوں کو متشددانہ کاروائیوں سے روک سکیں اور یہ سب ان کی اطاعت کرتے ہوئے اس بات کو منظور کر لیں کہ حکیم اللہ مذاکرات میں جو کچھ طے کرینگے یہ سب انہیںمن وعن تسلیم کرینگے؟طالبان کو اس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ افغان طالبان اپنے مشن اور نصب العین سے کیوں پیچھے نہیں ہٹے۔ان کا اول ایجنڈا یہ تھا تاکہ شریعت کی بالادستی قائم کی جائے سو انہوںنے امارات اسلامی افغانستان میں شریعت کو نافذ کیا۔ ان کا دوسرا ٹارگٹ وہ لوگ تھے جو شریعت کے دشمن ہیں اور شرعی نظام کیخلاف سازشیں اور کاروائیاںکرتے ہیں ۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے طاقت کے زور پر طالبان کی شرعی حکومت کو ختم کیا تو انہوں نے امریکہ کو دشمن نمبر ایک سمجھا اور اس کیخلاف لڑنے میں مصروف عمل ہو گئے۔ اس دس گیارہ سال کے عرصے میں وہ ایک روز کےلئے بھی اپنے اصل ہد ف اور مشن سے نہیں بھٹکے لیکن پاکستان میں سامنے آنیوالے طالبان نے اپنے ہی ملک کی فوج اور عوام کو اپناہدف کیوں بنالیا۔ ان گروپوں کو اپنے ساتھ کام کرنے کی اجازت کیوں دی جو مسلک اور فرقے کی بنیاد پر پاکستانیوںکا خون بہاتے ہیں ۔ مانا کہ امریکہ نے ڈرون حملے کےے ۔تسلیم کہ پاکستانی فوج نے ان طالبان کیخلاف جنگ لڑی لیکن پاکستان کے بے گناہ عوام نے ان کا کیابگاڑا تھا۔ وہ ٹھیلے والے مزدور جو قصہ خوانی بازار حملے میں مارے گئے یا دیگر خود کش دھماکوں کی نذر ہوئے۔ انہوں نے طالبان کیخلاف کیا سازش کی تھی کہ انہیں بے موت مار دیا گیا ؟ وہ تو غریب مسکین تھے اور ان کی ساری تگ و تاز کا محور انکے وہ گھرانے تھے جن کا پیٹ پالنے کےلئے و ہ غریب ان مقامات پر موجود تھے جہاں طالبان نے خود کش اورریموٹ کنٹرول دھماکے کئے۔ جماعة الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید نے واشگاف انداز میں کہا ہے کہ خود کش دھماکے حرام ہیں انکے خیال میں حقیقی طالبان پاکستان میں نہیں افغانستان میں ہیں جو امریکی و اتحادی دشمنوں کیخلاف بر سر پیکار ہیں ۔
وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید کے اس بیان سے عوامی حلقے بہت خوش ہوئے ہیں کہ ہم سیاسی قیادت کے فیصلے کیمطابق طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل آگے بڑھا رہے ہیں۔طالبان آئے روز اس نوعیت کے بیانات دیتے رہتے ہیں کہ حکومت سنجیدہ ہے تو ڈرون حملے بند کرائے ورنہ بات آگے نہیں بڑھ سکے گی ۔ پاکستان نے ہر فورم پر آوازبلند کی ہے اور اقوام متحدہ سے بھی رجوع کے بعد اب یہ عالمی ادارے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے چارٹر کے مطابق ان حملوں کو ناجائز بلکہ جارحیت قرار دینے کا صرف زبانی اظہار نہ کرے بلکہ انکی روک تھام میں اپنا عملی کردار نبھائے۔ پاکستانی قیادت کو اس سلسلے میں بالآخرکوئی سخت فیصلہ اگر آگے چل کر بھی کرنا ہے تو ابھی سے فیصلہ کرنے میں کیا قباحت ہے ۔ڈرون حملوں کی روک تھام کے بعد ردعمل ظاہر کرنے والوں کے پاس بھی انتقام کا حیلہ نہیں بچے گا اور ممکن ہے ڈرون حملوں کی بندش سے حالات ہی مثبت جانب کروٹ لیں اور مستقل قیام امن کی راہ ہموار ہو۔ توقع کی جانی چاہےے کہ اس سلسلے میں عالمی برادری وزیراعظم پاکستان کی اپیل کو سنجید گی سے لے گی اور ڈرون حملوں کی روک تھام مفاہمانہ فضا میں یقینی بنائی جائے گی تاکہ اس سے درپیش مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔رہی بات طالبان سے مذاکرات کی تو بات انتہائی خوش آئند ہے کہ ا ب موجودہ حکومت کو ساری قوم کی حمایت حاصل ہے کہ وہ پورے مینڈیٹ کے ساتھ طالبان سے مذاکرات کرے اور اپنی شرائط پر کرے اور اگر طالبان سے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر ان کیخلاف بھر پور طریقے سے فوجی آپریشن کیا جائے۔ امید ہے کہ حکومت اب طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز جلد کریگی۔