مذاکرات ناکام ہوئے تو ایسی جنگ ہوگی جو ابھی تک نہیں دیکھی گئی: بی بی سی
پشاور (بی بی سی + نیٹ نیوز) بی بی سی کے مطابق حکیم اللہ محسود کے ساتھ انٹرویو میں اور کچھ سمجھ آیا یا نہیں یہ ضرور پتہ چل گیا کہ جن مذاکرات کا اتنا چرچا ہے اور جن کی زیر زبر پر ایک عرصے سے اتنی گرما گرم بحث جاری ہے وہ آخر ہو کیوں نہیں پارہے۔ حکیم اللہ محسود کا کہنا ہے کہ حکومت نے اے پی سی کے بعد مذاکرات میڈیا کے حوالے کردیئے ہیں۔ حکومت نے ان کے پاس جرگہ بھیجا ہے اور نہ ہی میڈیا کے سوا کسی اور سطح پر ان سے رابطہ کیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ نواز شریف کی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی سے نمٹنا ہے، ایسا کرنے کے لئے اسے ہر فریق سے بات کرنے کا متفقہ سیاسی مینڈیٹ حاصل ہے۔ اس کے تمام وزیر اور مشیر بھی مذاکرات کی ضرورت کے قائل نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اب تک کسی ایسے عمل کا آغاز نہیں کرسکی جو مستقبل قریب میں امن کا ضامن بن سکے۔ اس کا جواب شاید حکیم اللہ کی ان باتوں میں ہے جو طالبان کی بنیادی سوچ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ پاکستان کے خلاف جنگ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ پاکستان کا امریکہ کا نائب ہونا ہے۔ دوسری بات کفری نظام (جمہوریت) ہے۔ بی بی سی کے مطابق یہاں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ طالبان نے افغانستان میں اپنے دور میں یہ دونوں کام کر دکھائے۔ اس سے قطع نظر کہ اس کی ان کے عوام یا معاشرے نے کیا قیمت ادا کی۔ نہ اپنی حکومت میں انہوں نے مغرب کے ساتھ کسی قسم کا سفارتی یا تجارتی تعلق رکھا ، نہ ہی انہیں اپنی شریعت کے نفاذ کے لئے عوامی حمایت، انتخابات یا جمہوریت کی ضرورت پڑی۔ ظاہر ہے وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ نہ تو وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کوئی بنیادی تبدیلی لاسکتی ہے ، نہ ہی وہ پاکستانی معاشرے کو مزید طالبانیت کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق طالبان کے سیاسی فلسفے میں کوئی لچک نہیں۔ ایسے میں مذاکرات شروع کرنا دراصل ایک ایسے عمل کی شروعات ہوگی جس کا انجام ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو ایک پردہ جس میں ابھی تک یہ امید چھپی ہے کہ شاید اسی طرح ملک میں امن قائم ہوسکے۔ وہ امید یا فریب بھی دم توڑ دے گا۔ پھر اصل جنگ شروع ہوگی ایسی جنگ جو پاکستان میں بھی ابھی تک نہیں دیکھی گئی۔ نواز شریف کی حکومت کی ابھی تک یہی سوچ ہے کہ اگر وہ اس جنگ کو روک نہیں سکتے تو کم از کم جتنا ٹال سکتے ہیں ٹال لیں۔ ان کی یہ سوچ اس حد تک ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ یہ جنگ جب بھی شروع ہوئی اس کا سب سے بڑا میدان قبائلی علاقے یا خیبر پی کے نہیں بلکہ پنجاب ہوگا۔