• news

بارہویں صدی کی سوچ‘ اکیسویں صدی کے ہتھیار

بارہویں صدی کی سوچ‘ اکیسویں صدی کے ہتھیار

ایسے افراد کا انتخاب بہت توجہ سے کیا جاتا ہے۔
1۔ پولیس اورپولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے عمر ، صنف، گرفتاری، رویوں کے بارے مےں تصدیق۔
2۔ مقامی جرگوں اور متعلقہ سےکورٹی حکام کے تعاون سے گرفتار افراد مےں سے انتخاب۔3۔ مختلف ماہرےن نفسےات کی مدد سے گرفتار افراد کے نفسےاتی مطالعے کئے جاتے ہےں۔4۔ متعلقہ خاندانوں اور آبادےوں کے سماجی روےے بھی دےکھے جاتے ہےں۔
5۔ اس پروگرام کیلئے منتخب کئے جانیوالے قےدےوں کو مستفےض (ےعنی فےض پانے والا) کہا جاتا ہے۔
پاک فوج نے اس کے لےے باقاعدہ نصاب بھی ترتےب دےا ہے۔ مذہبی ترغےب کے لےے اےسے قےدےوں سے تجربات بےان کروائے جاتے ہےں۔ جو تشدد ترک کرچکے ہےں۔ جائزہ لےنے کے لےے جرگوں کا انعقاد، پشےمانی اور تاسف پےدا کرنے کے لےے خودکش دھماکوں کی فلمےں دکھائی جاتی ہےں۔ مذہبی عنصر 59% ہے۔ سماجی عنصر 23% ہے۔ جس مےں مستفےض ہونے والوں کو معاشرے مےں اپنی ذمہ دارےوں کا احساس دلاےا جاتا ہے۔ ان کے فکری خطوط دےکھ کر۔ ان کی ماےوسی دور کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ انہےں دلےل کی بنےاد پر بات کرنے اور منطقی سوچ کی تربےت دی جاتی ہے۔
پیشہ ورانہ تربیت کا حصہ 10 فیصد ہے جس میںالیکٹریشن ، پلمبر، زرعی ٹیکنیشن شامل ہیں۔ نفسےاتی عنصر 8 فیصد ۔ ذہن میں سماجی اور اخلاقی اقدار کےلئے ابہام دور کرنا۔اس پروگرام کے ذریعے بحال ہونے والوں کی بعد میں بھی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔ اب تک دو ہزار سے زائد شدت پسند بحال ہو چکے ہیں۔ اطلاع یہی ہے کہ اس پروگرام کو پسند اور قبول کےا جا رہا ہے۔مستفید ہونے والے معاشرے کے ذمے دار شہری بن کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاک فوج کے متعلقہ ذمہ داروں کا یہ خےا ل ہے کہ اس مسئلے کی جتنی سنگینی ہے، جتنا پھیلاﺅ ہے، تنہا پاک فوج اسے نہیں سنبھال سکتی۔ اگرچہ یہ اصلاحی صلاحےت فوج کا منصب نہیں ہے لیکن اسے قوم کے مفاد میں ازخود اختےار کر لیا گےا ہے۔ محدود وسائل اور دوسرے امور کی بناءپر فوج اسے انتہائی محدود پیمانے پر جاری رکھ سکتی ہے۔ان سرگرمیوں میں توسیع ناگزیر ہے۔ چند افراد کے ذہنوں مےں انتہا پسندی کی بےخ کنی سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہےں ہوں گے۔ ضرورت ےہ ہے کہ جن پوری پوری بستےوں اور برادرےوں کے ذہنوں مےں ےہ شدت اےک نظرےے کے طور پر پختہ ہوچکی ہے۔ وہاں بھرپور انداز سے اس مشن کی تکمےل کی جائے۔ پاک فوج بجا طور پر ےہ توقع رکھتی ہے کہ سوےلےن اس پروگرام کی موثر حماےت کرےں گے۔ قومی سطح پر اسکی پذےرائی ہوگی۔ حکومت وقت کو بھی ان مساعی مےں حصّہ لےنا چاہےے۔ اور اس مقصد کی تائےد مےڈےا، درسگاہوں، علمائے دےن، سول سوسائٹی کے دےگر شعبوں کی طرف سے بھی ہونی چاہےے۔
 پاکستان کے عوام کا ےہ مقدر نہےں ہونا چاہےے کہ وہ ہمےشہ بحرانوں مےں الجھے رہےں۔ اپنے کاروبار، دفاتر، گھروں کے بارے مےں بے ےقےنی مےں مبتلا رہےں۔ اےک دوسرے کو کافر کہتے رہےں۔ طالبان ےا دوسرے شدت پسند اےک فکری عمل کے نتےجے مےں ہتھےار اٹھانے کے مرحلے تک پہنچے ہےں۔ ان مراحل کا مطالعہ ضروری ہے۔ ان کے رسالوں، اخبارات، اےف اےم رےڈےو، ٹی وی کی نشرےات، کتابوں کو پڑھنا اور سمجھنا چاہےے۔ اےسے جےد علماءاور مفتےان جن کا سب احترام کرتے ہےں۔ ان سے گزارش کی جائے کہ وہ امّت مسلمہ کی بہبود۔ اسلامی تعلےمات کے وقار۔ پاکستان کے عوام کے تحفظ کے مفاد مےں آگے آئےں۔ طالبان کے مذہبی سربراہوں سے ان کا مکالمہ ہو۔ جہاں جہاں فاصلے ہےں وہ دور کئے جائےں۔ پاکستان کے عوام اور دنےا بھر کے مسلمانوں مےں جہاد۔ اجتہاد دےگر مذہبی شعائر اور معتقدات کے بارے مےں جو شکوک شبہات اور خدشات پائے جاتے ہےں۔ ان کو واضح کیا جائے۔ جہاں جہاں ےہ شدت پسند اپنی تعلےمات کو نشر کررہے ہےں۔ وہاں محترم علماءکے تعاون سے جوابی پروگرام نشر کئے جائےں۔ پشتو مےں کتابےں شائع کی جائےں۔
روشن خےال ہوں ےا بنےاد پرست۔ دونوں طرف کی انتہائےں خطرناک ہےں۔ کےونکہ وہ اےک دوسرے کو سمجھنے سننے اور قرےب آنے سے گرےز کرتی ہےں۔ اسطرح ذہنوں مےں انتشار پےدا ہورہا ہے۔ معاشرہ بری طرح تقسےم ہورہا ہے۔ تضادات تقوےت پا رہے ہےں۔
یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اپنے تنازعات طے نہ کرنے کے باعث شدّت پسندی نے جڑ پکڑی ہے۔ ہتھیا ر اٹھائے گئے ہیں۔ اب تنازعات کاتصفیہ ہونا چاہیے۔ مذہبی جماعتیں اگر ملک میں اسلام نا فذکرنا چاہتی ہیں تو وہ اسکے خطوط واضح کریں۔ پاکستان کے عوام اللہ کی حاکمیت کو مانتے ہیں ۔ محمدرسول اللہ کی اطاعت اور ان سے عشق پر فخر کرتے ہیں ۔ وہ اگر اس نظام میں نجات سمجھےں گے تو یقینا وہ اسکے نفاذ کیلئے آپ کو مینڈیٹ دینگے۔ مگر مذہبی حلقے یہ بھی جانتے ہیں کہ کبھی ایسے نظام کے اختیارات، معاشی زاویے، انتظامی امور واضح نہیں کیے گئے۔اس لیے ان کو پنجاب کے زمینداروں، بلوچستان کے سرداروں ، کراچی کے صنعتکاروں اور مڈل کلاس، سندھ کے وڈیروں کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ ہتھیار اٹھانے کے نتیجے میں خوف وہراس پیداہواہے لیکن عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ یہ اعتماد سب کو ہونا چاہیے کہ مو جودہ پاکستان انتہائی اہم محل وقوع رکھتاہے جو کسی بھی مملکت کیلئے سیاسی، علاقائی ، عسکری طاقت کا سبب ہوسکتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کی ساٹھ فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو آج کی دنیا میں بقا اور آگے بڑھنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔پاکستان کے قدرتی وسائل اب بھی مسائل سے کہےں زیادہ ہیں۔ ہم دوسروں کی لڑائیاں چھوڑ کراپنی لڑائی لڑیں جو بیماری، جہالت اور مایوسی کے خلاف ہو۔ اس سے ہم استعماری طاقتوں کا مقابلہ بھی کرسکتے ہیں اور اقتصادی اور صنعتی طور پر بھی طاقتور ہوسکتے ہیں۔
ےونےورسٹےوں، سرکاری اور پرائےوےٹ دونوں مےں اسلامی تعلےمات لازمی پڑھائی جانی چاہئےں۔ تاکہ نوجوان اپنے اسلامی شعائر سے بہ خوبی واقف ہوں۔ اور وہ لاعلمی مےں شدت پسندوں کے لٹرےچر سے متاثر نہ ہوں۔ اسی طرح ہمارے دےنی مدارس بھی نوجوانوں کے ذہن بڑی تعداد مےں بنارہے ہےں۔ وہاں بھی موجودہ تنازعات پر واضح تعلےم دےنی چاہےے۔ دےنی مدارس اب مرکزی دھارے سے باہر نہےں ہےں ۔ اےک اندازے کے مطابق تمام مسالک سے مدارس کی تعداد 25 ہزار کے قرےب ہے۔ جس مےں بےس سے پچےس لاکھ طلبہ زےرتعلےم رہتے ہےں۔ طالبات کی تعداد کم ہے۔70 ہزار کی تعداد مےں حفاظ فارغ ہوتے ہےں۔ ان سب کو بھی ہمےں معاشرے کی تربےت اور تشکےل مےں موقع دےنا چاہےے۔ شدّت پسندی ملک مےں لسانی، نسلی اور علاقائی بنےادوں پر بھی ہے۔ ےہ نوجوان بھی ہتھےار اٹھا رہے ہےں۔ لےکن جس انتہاپسندی مےں مذہب سے وابستگی شامل ہوجائے وہ زےادہ سنگےن اور خطرناک ہوجاتی ہے۔ اس لےے طالبان اور دوسرے مذہبی شدت پسندوں سے وابستہ مسائل کو فوقےت دےنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ماےوسی بڑھ رہی ہے۔ ہلاکتوں مےں اضافہ ہورہا ہے۔ اےک طرف ےہ ملک کی بقا کا سوال ہے۔ دوسری طرف اسلام کے وقار کا۔(آخری قسط 4/4)

محمود شام....وطن کی فکر

محمود شام....وطن کی فکر

ای پیپر-دی نیشن