حکیم اللہ محسود کا بی بی سی کے ذریعہ حکومت کو انتباہ اور کنٹر جھڑپ میں مولوی فضل اللہ کے مارے جانے کی اطلاع....دہشت گردی کے خاتمہ کی فیصلہ کن کارروائی کا یہی موقع ہے
حکیم اللہ محسود کا بی بی سی کے ذریعہ حکومت کو انتباہ اور کنٹر جھڑپ میں مولوی فضل اللہ کے مارے جانے کی اطلاع....دہشت گردی کے خاتمہ کی فیصلہ کن کارروائی کا یہی موقع ہے
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے کہا ہے کہ حکومت نے مذاکرات کیلئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا‘ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد حکومت نے مذاکرات میڈیا کے حوالے کردیئے۔ گزشتہ روز کسی نامعلوم مقام سے بی بی سی کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں حکیم اللہ محسود نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کا رسمی اعلان ہوتا اور مذاکرات کیلئے رسمی جرگہ بھجوا دیا جاتا‘ ہم میڈیا کے ذریعے مذاکرات نہیں کرینگے‘ نہ ہی ہم حکومتی شرائط میڈیا کی وساطت سے سننا چاہتے ہیں‘ اسی طرح ہم اپنی شرائط بھی میڈیا کو نہیں دینا چاہتے۔ حکیم اللہ کے بقول طالبان سنجیدہ مذاکرات کے قائل ہیں۔ اگر مذاکرات کی سنجیدہ حکومتی کوشش ہوئی تو وہ مذاکرات کر سکتے ہیں جبکہ حکومت نے رسمی طور پر ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اگر کوئی حکومتی جرگہ طالبان سے مذاکرات کیلئے آیا تو اسے مکمل تحفظ فراہم کرینگے۔ حکیم اللہ محسود نے دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواز میں یہ منطق پیش کی کہ یہ کارروائیاں دو وجوہات کی بنیاد پر کی جاتی ہیں‘ ایک یہ کہ پاکستان کی امریکہ سے دوستی ہے جس کے کہنے پر علماءکو قتل کیا گیا اور دینی مدارس کو تباہ کیا گیا‘ جبکہ دوسری وجہ پاکستان کا کافرانہ نظام ہے‘ ہم امریکی انخلاءکے بعد بھی شریعت کا مطالبہ کرتے رہیں گے اور اگر امریکہ کی جانب سے کئے جانیوالے ڈرون حملے بند ہوتے ہیں تو طالبان جنگ بندی کیلئے تیار ہونگے۔ حکیم اللہ کے بقول پاکستان میں پبلک مقامات پر دھماکوں سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں۔ ان دھماکوں میں خفیہ ادارے ملوث ہیں جس کا مقصد لوگوں کو طالبان سے بدظن کرنا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ اپنے انٹرویو کا باقاعدہ اہتمام کرکے بے گناہ و معصوم شہریوں کا بے دریغ خون بہانے‘ پاکستان کا امن تباہ کرنے اور اسکی سالمیت کو کمزور بنانے والی سفاکانہ دہشت گردی کے جواز میں جس لہجے میں جو غیرمنطقی دلائل دیئے ہیں اور 2014ءمیں افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کے بعد بھی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے‘ وہ اس مسلح انتہاءپسند گروپ کی جانب سے بندوق کے زور پر ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی ہی دلیل ہے۔ اگر بندوق اٹھا کر ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنیوالے ہر شخص یا گروہ کی بندوق کے زور پر اپنے مطالبات پیش کرنے اور منوانے کی حوصلہ افزائی کی گئی تو پھر حکومتی ریاستی اتھارٹی کا تصور ہی ختم ہو جائیگا اور حکمران ہر ایسے مسلح گروپ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے‘ ملک اور معاشرے کے امن و سکون کی تباہی کا اہتمام کرتے رہیں گے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ حکیم اللہ محسود ایک جانب تو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم میڈیا کے ذریعے مذاکرات نہیں کرینگے اور نہ ہی اس معاملے میں میڈیا کی وساطت سے حکومتی شرائط سنیں گے‘ نہ اپنی شرائط میڈیا کے ذریعے پیش کرینگے‘ جبکہ حکومت تک اپنی یہ آواز پہنچانے کیلئے انہوں نے خود بھی میڈیا کا سہارا لیا اور اسی میڈیا کے ذریعے مذاکرات کیلئے اپنی شرائط بھی پیش کیں‘ چنانچہ ان کا بیان تضادات کا مجموعہ نظر آتا ہے جبکہ وہ میڈیا کے چینل کو ہی استعمال کرکے حکومتی ریاستی اتھارٹی کو بھی چیلنج کررہے ہیں اور اپنی من مرضی کا نظام شریعت نافذ کرنے کا پیغام بھی دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں انکی اس بات پر کون یقین کریگا کہ حکومت نے مذاکرات کے سلسلہ میں جرگہ بھجوایا تو اسے مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا۔ درحقیقت حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ قیام امن کی کوششوں سے دہشت گردوں کے مقابل حکومتی کمزوری کا جو تاثر پیدا ہوا‘ طالبان کے دہشت گرد گروپوں کو اس سے ہی نیا حوصلہ ملا جو حکیم اللہ محسود کے ڈکٹیٹ کرانے والے انداز سے عیاں ہے۔ اگر وہ اس سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کا عندیہ دے رہے ہیں اور اپنی من مرضی کا نظام شریعت مسلط کرنے پر ہی مصر ہیں تو پھر حکومت نے طالبان کے ساتھ کس ایشو پر مذاکرات کرنے ہیں۔ بی بی سی نے اسی تناظر میں اپنی خصوصی رپورٹ میں باور کرایا ہے کہ حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھی تو پھر اصل جنگ شروع ہو گی‘ وہ ایسی جنگ ہو گی جو پاکستان میں ابھی تک نہیں دیکھی گئی۔ بی بی سی کے بقول نوازشریف حکومت اس جنگ کو جتنا بھی ہو سکے‘ ٹالنے کیلئے کوشاں ہے‘ جس کا پس منظر یہ ہو سکتا ہے کہ جب بھی یہ جنگ شروع ہوئی تو اس کا سب سے بڑا میدان خیبر پی کے اور قبائلی علاقوں کے بجائے پنجاب ہو گا۔ گزشتہ روز پرانی انارکلی لاہور کے ایک ہوٹل میں ہونیوالے بم دھماکے سے بھی یہی عندیہ مل رہا ہے کہ طالبان نے اپنی دہشت گردی کے ذریعے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے اب پنجاب کو ہدف بنالیا ہے۔ پرانی انارکلی کے دھماکے میں ایک شخص کے جاں بحق اور 19 افراد کے زخمی ہونے سے صوبائی دارالحکومت میں خوف و ہراس کی فضا کی نئی لہر پیدا ہوئی جبکہ لاہور ہائیکورٹ میں اسی روز بم رکھے جانے کی اطلاع نے خوف و ہراس کی فضا کو مزید تقویت پہنچائی۔ اسی طرح گزشتہ روز رنگ روڈ پشاور میں بھی دھماکہ ہوا‘ جس میں انسداد پولیو کی ٹیم کی حفاظت پر مامور لیویز کی گاڑی کو ہدف بنایا گیا جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ دہشت گردوں نے حکومتی مشینری اور سکیورٹی ایجنسیوں کو ملک کے ہر کونے میں بیک وقت مصروف رکھنے کی حکمت عملی طے کی ہے۔ شاید دہشت گرد حکومت کے اعصاب کی مضبوطی کا امتحان لینا چاہتے ہیں مگر انکی دہشت گردی کے نتیجہ میں بے گناہ اور معصوم شہریوں کی زندگیاں ہی ضائع ہو رہی ہیں۔
اس تناظر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے طالبان کی پیدا کردہ خوف و ہراس کی فضا میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے فیصلہ کن اپریشن کو ٹالے رکھنے کی حکومتی پالیسی ملک اور عوام کے مزید جانی و مالی نقصان پر منتج ہو سکتی ہے جبکہ حکومت کیلئے اب دہشت گردوں کے مقابلے میں اعصاب کی جنگ جیتنا انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ یہی وقت ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے پر‘ چاہے وہ ملک کے جس بھی حصے میں موجود ہوں‘ فیصلہ کن اپریشن کا آغاز کرکے ملک بھر میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے کی انکی نئی حکمت عملی کو آغاز ہی میں ناکام بنا دیا جائے۔ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں اب تک جتنے جانی و مالی نقصانات اٹھائے ہیں‘ وہی ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہیے۔ چہ جائیکہ دہشت گردی کیخلاف کمزور اور ڈھیلی ڈھالی پالیسیاں اختیار کرکے ملک اور عوام کو مزید نقصانات سے دوچار کیا جائے‘ جس کے ہم اب کسی صورت متحمل بھی نہیں ہو سکتے۔
افغان صوبہ کنٹر میں طالبان گروپوں کی جھڑپ میں سوات طالبان کے سربراہ مولوی فضل اللہ کی ہلاکت کی اطلاع سے بادی النظر میں طالبان کی صفوں میں دراڑیں پیدا ہونے کا عندیہ ہی مل رہا ہے اس لئے حکومت اور اسکی سکیورٹی ایجنسیوں کو طالبان کی صفوں میں پیدا ہونیوالی ایسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کیخلاف فیصلہ کن اپریشن کا آغاز کردینا چاہیے۔ دہشت گردی کے ناسور سے خلاصی پانے کے ایسے مواقع مشکل ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر حکومت دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پرعزم رہے اور بے لاگ اپریشن کے عملی اقدامات اٹھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے اہداف پورے نہ ہو سکیں۔