نئے عسکری سالار کا چناﺅ ۔ ۔۔ ایک جائزہ
نئے عسکری سالار کا چناﺅ ۔ ۔۔ ایک جائزہ
پاکستان کی فوج دنیا کے تقریباً 250ممالک کی افواج میں آٹھویں بڑی فوج ہے۔ میزائلوں سے لیس یہ عسکری ادارہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بھی ہے۔ افواج پاکستان میں کمیشن حاصل کرنے والے پاکستانی نوجوانوں کو ایسے اداروں میں تربیت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے جو بین الاقوامی شہرت یافتہ ہیں۔ مثلاً پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ اورنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد ایسے ادارے ہیں جن میں امریکہ اور مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا کے مختلف براعظموں سے فوجی آفیسران تربیت کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی فوج کے میرٹ پر چنے ہوئے قابل ترین آفیسرز کو بھی برطانیہ، کینڈا، آسٹریلیا اور امریکہ کے بین الاقوامی شہرت کے حامل بہترین عسکری اداروں میں پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع ملتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ بات باعث حیرت نہیں کہ افواج پاکستان کا ادارہ پاکستان کا مضبوط ترین ادارہ ہے جس کی چند بڑی وجوہات کچھ یوں ہیں۔ (۱) پاک فوج پاکستان کا سب سے زیادہ منظم ادارہ ہے جس میں تقریباً ہر تعنیاتی اور ترقی میرٹ اور صرف میرٹ پر ہوتی ہے۔تقریباً کا لفظ میں نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے چونکہ کئی تعیناتیوں اور ترقیوں میں انسانی خطائیں بھی ضرور حائل ہوتی ہیں اور جہاں کئی اہل آفیسرز کسی سینئر کمانڈرکے غضب کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں تو وہاں ترقی کے لئے نااہل امیدواروں کی کمزوریوں کو کئی سینئر کمانڈر ترقی دیتے وقت اپنی بینائی سے محروم آنکھ سے دیکھتے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایسی مثالیں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ (۲) نوجوان اور خوبصورت فوجی سپاہی اور آفیسرز تھوڑا سا ماہانہ اعزازیہ لے کر رضا کا رانہ طور پر ملکی سلامتی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے لے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تقریباً پندرہ بیس کروڑ عوام افواج پاکستان کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہتے ہیں۔ (۳) افواج پاکستان کے اہم ہونے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ 6لاکھ افراد پر مشتمل سب سے بڑا ادارہ ہے جونہ صرف مسلح ہے بلکہ اس کی چھاﺅنیاں پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں اور قومی سلامتی کو لاحق بیرونی اور اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے بھی حکومت کے ہاتھ یہی ادارہ مضبوط کرتا ہے۔
قارئین یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں حکومتیں اور عوام اپنی اپنی افواج کے مجاہدوں کی بہت پذیرائی کرتے ہیں لیکن پھر بھی کسی ملک میںبھی افواج کے سالار کی ریٹائرمنٹ یا نئے سالار کی تعنیاتی کوئی بہت بڑی خبر نہیں بنتی۔ جس طرح پاکستان میں بہت سارے لوگ افواہیں، تبصرے ،تجزئے اور تحفظات پیش کرتے ہیں ایسا دنیا کے دوسرے ممالک میں بالکل نہیں ہوتا لیکن آرمی چیف کی تعنیاتی پاکستان میں اس لئے بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہے چونکہ ماضی میں بد قسمتی سے چار دفعہ عسکری ادارے کے سربراہوں نے ماورائے آئین اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اللہ کرے مستقبل میں ایسا کبھی نہ ہو چونکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ افواج کے سیاست میں ملوث ہونے سے نہ صرف افواج پاکستان کے مقدس ادارے بلکہ پاکستان کی ریاست پر بھی بہت منفی اثرات پڑتے ہیں۔
فوج میں کمیشن لینے والا ہر سیکنڈ لیفٹینٹ ترقی کے امتحانات پاس کرکے اپنی سنیارٹی کے مطابق میجر کے عہدے تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس عہدے تک ترقی کے لئے پہلی ترجیح سنیارٹی ہے بشرطیکہ پروموشن کے امتحانات پاس کئے ہوں اور کردار پر کوئی منفی داغ نہ پڑے اسی طرح افواج پاکستان میں اگر مثال کے طور پر میجر ز کی آسامیاں سولہ ہزار ہیں تو کرنل کے عہدے کی آسامیاں تقریباً چار ہزار، بریگیڈیرز کی تقریباً ایک ہزار، میجر جنرلز کی ایک سو اور لیفٹنٹ جنرلز کی اندازاً ایک درجن ہونگی اس لئے میجرسے کرنل ، بر یگیڈیر، میجر جنرل اور لیفٹنٹ جنرل کے عہد وں پر ترقی کے لئے سلیکشن بورڈ بنتے ہیں اور وہ ایک بڑے شفاف اندازمیں پیشہ ورانہ میرٹ کے مطابق بہتر میں سے بہترین آفیسرز چن کر ان کو اگلے عہدوں پر ترقی دینے کے لئے ان کے نام وزارت دفاع اور وزیر اعظم کے پاس حتمی منظوری کے لئے بھیج دیئے جاتے ہیں۔ آخر کا ر وزیر اعظم لیفٹنٹ جنرلز میں سے ایک کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر ترقی دیتا ہے ۔ ان تمام ترقیوں میں سنیارٹی تو ضرور ذہن میں رکھی جاتی ہے لیکن ترقی کا اصل میرٹ پیشہ ورانہ صلاحتیں ہی ہوتی ہیں۔ میرٹ میں بنیادی چیز سنیارٹی ہے اس کے بعد آپ کی مختلف عہدوں پر مختلف عسکری ماحول میں مختلف سینئر کمانڈرز کی لکھی ہوئی ACRs یا سالانہ کانفیڈینشنل رپورٹس ہیں۔ ساتھ ہی آپ کی سٹاف کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی کورس رپورٹس دیکھی جاتی ہیں ۔ یہ بالکل ہی آزاد اور غیر جانبدار رپورٹس ہوتی ہیں جو آفیسرز کی قابلیت کا بغور جائزہ لیکر لکھی جاتی ہیں۔ ان کورس رپورٹس کے علاوہ ایڈجوٹینٹ جنرل اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے اگر متعلقہ آفیسرز کے Conduct پر یا اس کی شخصیت میں تبدیلی کے ایسے رجحانات مثلاً مذہبی انتہا پسندی ، فرقہ واریت کی طرف جھکاﺅ، یا سیاست میں ملوث ہونے کی رپورٹ ملے تو وہ بھی پروموشن بورڈ کے سامنے لائی جاتی ہیں ۔ ترقی کے امیدوار افسران کے سوشل کنڈکٹ سے اگر کوئی ایسی خامی سامنے آئے جو ان کی ڈیوٹی کے راستے میں حائل ہو سکتی ہے توایسے آفیسر کو مزید ترقی نہیں دی جاتی۔ اسی طرح جسمانی طور پر دل یا ذیابطیس یا کسی دوسرے عارضے میں مبتلا آفیسرزکی ترقیاں بھی روک لی جاتی ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کی ترقی کے لئے بھی جو چند سینئر موسٹ لیفٹنٹ جنرلز کے نام اور سروس ریکارڈ وزیراعظم کے سامنے آتے ہیں ان کو وزیر اعظم ایک ایک کر کے دیکھتا ہے۔ ایک غیر جانبدار، موثر او ر خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار چیف ایگزیکٹیو ان افسران میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لئے سب سے پہلے سینئر موسٹ کو ترجیح دے گا لیکن جس طرح ہاتھ کی پانچ انگلیاں برابر نہیں اسی طرح ایک ہی رینک کے سارے آفیسرز بھی شائد آرمی چیف کے اہم ترین عہدے کی موزونیت کے پیمانے پر پورا نہ اتریں۔ اس لئے چیف ایگزیکٹیو کو پاکستان آرمی کی قیادت کیلئے سالار کے انتخاب کے واسطے یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اس لئے وار ٹائم آرمی چیف ایک پیشہ ور دلیر اور بولڈ عسکری سالا ر ہونا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں State Person کی وہ بصیرت بھی ہونی چاہئے جو Battles لڑے بغیر War جیتنے یا سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں امریکہ کی End Game ہمارے لئے ایک اور اندوہناک صورت حال کی ابتدا بھی ہو سکتی ہے۔
افواج پاکستان کی اگر ماضی میں کارکردگی پاکستان کے دوسرے اداروں سے منفرد اور بہتر رہی تو اس کا کریڈٹ عسکری قیادت کے علاوہ ان سیاسی قائدین کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اپنی حکمرانی کی ساری کمزوریوں کے باوجود عسکری اداروں کو کمزور کیا نہ ان کی تعیناتیوں اور ترقیوں میں مداخلت کی ورنہ جیسے سیاسی حکومتوں میں مختلف سیاسی دھڑے بر سر اقتدار حکومتو ں کو بلیک میل کرکے وزارتیں مانگتے ہیں اسی طرح وہ یہ مطالبہ بھی کرسکتے تھے کہ کراچی ، پشاور، کوئٹہ یا لاہور میں ہماری جماعتوں کی رضا مندی سے کور کمانڈر لگائے جائیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں اپنی فوج کو تباہ کرنے کے لئے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رحمٰن ملک صاحب کو DG ISI کی پوسٹ وزارت داخلہ کے بطن میں ڈال کر بھی باہر اگلنا پڑی۔افواج پاکستان کو سیاست سے دور رکھ کر ہی ہم اس ادارے کو دنیا کی بہترین پیشہ ور لڑاکا فوج بنا سکتے ہیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ موجودہ حکومت نئے COAS کا انتخاب کرتے وقت یہ معروضات یقینا ذہن میں رکھے گی ۔اس کے علاوہ جیسے ایک دیانتدار جمہوری نظام ، متحرک میڈیا اور آزاد عدلیہ پاکستان کے لئے اشد ضروری ہیں بالکل اسی طرح ایک با اختیار اور پیشہ ور چیف آف آرمی سٹاف کی قیادت میں جدید ہتھیاروں سے لیس ایک موثر فوج قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے نہائت اہم ہے۔