” سر کوئی گڑ بڑ لگتی ہے “
” سر کوئی گڑ بڑ لگتی ہے “
یوں تو کارگل آپریشن کے بعد 1999ءمیں ملک میں جو فضاءپیدا ہوگئی تھی اس میں قیاس آرائیاں زوروں پر تھیں۔ وزیراعظم نوازشریف کی اس وقت کے آرمی چیف سے ملاقات اور پھر وزیراعظم کی امریکہ روانگی اور ان کی اس وقت کے صدر کلنٹن سے ملاقات کے اعلان سے بہت کچھ سامنے آرہا تھا۔ بارہ اکتوبر 1999ءکی شام کو مجھے چکوال میں نوائے وقت کے نامہ نگار غلام رضا کا فون آیا انہوں نے چکوال کی مخصوص زبان میں کہا کہ ” سر کوئی گڑ بڑ لگتی ہے “ میں نے جواباً کہا کہ کیسی گڑ بڑ غلام رضا نے کہا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات اچانک بند ہوگئی ہیں ۔ یہ سن کر میں نے فون بند کیا اس وقت میں دارالحکومت کی ایک سڑک پر تھا میں نے ایک باخبردوست کو فون کیا تو اس باخبر دوست نے بتایا کہ اس نے ابھی ابھی ایک فوجی گاڑی کو وفاقی وزیر سرتاج عزیز کے گھر میں داخل ہوتے دیکھا ہے ۔ اچانک کئی فون آئے کہ ملک میں مارشل لاءلگ گیا ہے ۔
روایتی طور پر مارشل لاءلگانے میں فوج کا ٹرپل ون 111بریگیڈ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ وزیراعظم ہاو¿س‘ ایوان صدر ‘ پارلیمنٹ ہاو¿س‘ پاکستان ٹیلی ویژن‘ ریڈیو پاکستان اور دوسری اہم عمارتوں پر قبضہ ٹرپل ون بریگیڈ ہی کرتا ہے۔
بارہ اکتوبر 1999ءکی شام مجھ سمیت سارے اخبارنویس پاکستان ٹیلی ویژن ہا¶س پہنچ گئے ۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا۔ اخبارات کے نمائندے جن میں غیر ملکی اخبار نویس بھی شامل تھے‘ درجنوں کی تعداد میں پی ٹی وی کی عمارت کے باہر جمع ہوگئے تھے۔ ہمارے سامنے فوجی افسر اور جوان پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوئے تھے۔ عمارت کے اندر کیا ہورہا تھا ۔ اس کی تفصیلات بعد میں سامنے آئیں لیکن اتنا ہمیں ضرور پتہ چل گیا کہ جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرکے جنرل ضیاءالدین کو آرمی چیف بنانے کی جو خبر پی ٹی وی سے نشر ہوئی تھی وہ دوبارہ نشر نہیں کی گئی۔ ٹی وی کی سکرین بالکل BLANK ہوگئی تھی ۔ جب ہم سب اخبار نویس پی ٹی وی کی عمارت کے سامنے ملٹری ٹیک اوور کی تفصیلات کی ٹوہ لگانے میں مصروف تھے تو اسی دوران پی ٹی وی کی عمارت کے اندر گڑ بڑ ہورہی تھی۔ سنا یہ گیا تھا کہ وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری نے آکر ان افسران کو جنہوں نے پی ٹی وی کی نشریات رکوا دی تھیں حراست میں لے لیا ہے اور ایک طرح کی کشمکش شروع ہو چکی تھی۔ اسی دوران ایک غیر ملکی خبررساں ایجنسی کا نمائندہ موبائل پر اپنے ادارے کو یہ خبر لکھوا رہا تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر فوج نے قبضہ کرلیا ہے لیکن ابھی تک قطعی طورپر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جن فوجی دستوں نے پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کیا ہے وہ پرو نوازشریف ہیں یا مشرف ؟ اس غیر ملکی اخبار نویس کے اس جملے نے مجھے بے حد پریشان کر دیا کیوں کہ پاکستان میں اس سے پہلے فوجی ٹیک اوور کی فوج کے اندر سے مزاحمت کی کوئی مثال موجود نہیں تھی۔ چونکہ جنرل مشرف جنہیں برطرف کیا گیا تھا وہ خود سری لنکا کے دورے سے واپس آرہے تھے‘ وہ خود تو فضا میں تھے لیکن ان کے ساتھی جرنیل زمین پر ان کے ٹیک اوور کے لیے راستہ ہموار کررہے تھے۔ کراچی میں جنرل عثمانی‘ راولپنڈی میں چیف آف جنرل سٹاف جنرل عزیز اوردوسرے سینئر آفیسر جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے لئے فعال ہو چکے تھے اس لئے کئی طرح کے خدشات موجود تھے۔
وزیراعظم ہا¶س میں بارہ اکتوبر کی شام کو جو کچھ ہوا اس کے بارے میں کئی عینی شاہدین نے اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں۔ بارہ اکتوبر بھی 27 اکتوبر 1958ئ‘ 25 مارچ 1969ءاور پانچ جولائی 1977ءکی شاموں کی طرح کی ہی ایک شام تھی جس میں فوج نے اقتدار ایک منتخب سویلین حکومت سے لے لیا تھا‘ بارہ اکتوبر رات گئے جنرل مشرف نے قوم سے خطاب کر کے اعلان کیا کہ وہ اب اقتدار پر قابض ہو چکے ہیں۔ انہوں نے جنرل ایوب خان‘ جنرل یحیی خان اور جنرل ضیاءالحق کی طرح اپنے آپ کو چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر نہیں کہا‘ کئی ماہر قانون دانوں سے مشورے کے بعد انہوں نے اپنے لئے چیف ایگزیکٹو کا منصب منتخب کیا اور ملک کے لئے ایک سات نکاتی ایجنڈا دیا جس کے ذریعے انہوں نے پاکستان کو ایک طاقت ور اور مضبوط ملک بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔
عملی طورپر انہوں نے معزول وزیراعظم اور ان کی حکومت کے ساتھ وہی کیا جو ان کے پیش رو فوجی حکمران کرتے چلے آئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کو تقسیم کر کے ایک دھڑے کو اپنے ساتھ ملانا شروع کیا۔ وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا اور آخر کار ایک دوست اسلامی ملک کی مداخلت سے وزیراعظم اوران کے اہل خانہ کو اس دوست ملک میں پناہ لینے کی اجازت دے دی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف آج خود قتل اور کئی دوسرے جرائم کی وجہ سے جیل میں ہیں جب کہ جس وزیراعظم کو انہوں نے اقتدار سے نکال باہر کیا اور ملک بدر کر دیا اور جس وزیراعظم کے بارے میں وہ باربار کہتے رہے کہ ”ان کے واپس آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“ وہ آج پھر ملک کے منتخب وزیراعظم ہیں پاکستان میں یہ ایک انہونی بات لگتی ہے۔ کیونکہ یہاں جن وزرائے اعظم کو فوج نے اقتدار سے ہٹایا انہیں دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیا گیا۔فوج نے اب شاید اس بات سے سبق سیکھا ہے اوراب فوجی ٹیک اوور کے امکانات معدوم لگتے ہیں۔