زرداری کا بیرون ملک قیام: بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی کی حالت 11 مئی جیسی ہونے کا خطرہ
لاہور (سید شعیب الدین سے) سابق صدر آصف زرداری کے مسلسل بیرون ملک قیام کے باعث آئندہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حالت 11 مئی جیسی ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ پارٹی رہنما اور ورکر پریشان ہیں کہ وہ کس ”قیادت“ سے رابطہ کریں۔ پاکستان میں کسی بھی ”بھٹو“ کی عدم موجودگی کے باعث ورکر کسی ”متبادل قیادت“ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، اعتزاز احسن، منظور وٹو، چودھری احمد مختار، راجہ ریاض، قمر الزمان کائرہ سمیت کسی بھی لیڈر کو ورکر ”متبادل قیادت“ سمجھنے پر تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”بی بی“ بیشک بیرون ملک رہتی تھیں مگر وہ ہر ورکر کے دل میں رہتی تھیں۔ ان کی دوری کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی مگر اب بے نظیر بھٹو کی عدم موجودگی میں لگتا ہے جیسے ”سر سے چھت“ ختم ہو گئی ہے۔ بینظیر بھٹو کے بعد 5 سالہ اقتدار میں بھی ”قیادت“ نے ورکرز کو ”لفٹ“ نہیں کرائی اور ورکرز سے دور رہی۔ لاہور میں بلاول ہاﺅس تعمیر ہوا تو لاہور سے ”دور“ ہونے کے باوجود امید بندھی تھی کہ اب قیادت سے رابطہ بڑھے گا اور قیادت ”پاس“ آئے گی مگر ”قیادت“ صرف ایک جھلک دکھا کر پھر بیرون ملک منتقل ہو گئی۔ ورکر اور رہنما پنجاب پی پی پی کے صدر میاں منظور وٹو، سینئر رہنما اعتزاز احسن کی لاہور میں موجودگی کے باوجود انہیں ”لفٹ“ کرانے کو تیار نہیں۔ پی پی پی کے ورکرز نے دل سے میاں منظور وٹو کی صدارت قبول نہیں کی۔ منظور وٹو بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے سیاست کا آغاز میاں یٰسین وٹو کے ساتھ پیپلز پارٹی سے کیا تھا مگر ورکرز اسے تسلیم نہیں کرتے۔ سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز نے وزیراعظم کا کردار ضرور ادا کیا ہے مگر پارٹی ورکر انہیں اس کردار میں بطور ”کریکٹر ایکٹر“ قبول کرتا ہے۔ ورکرز کے نزدیک قیادت کا حق صرف ”بھٹوز“ کا ہے اور بھٹو انہیں میسر نہیں ہے۔ بلاول بھٹوز زرداری 25 سال کے ہو جانے کے باوجود میدان میں آنے سے کترا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ زرداری لگا ہونے کے باوجود ورکرز کیلئے وہ بینظیر بھٹو کے بیٹے ہیں مگر بلاول ورکرز سے دوری ختم کرنے کو تیار نظر نہیں آئے۔ ان کو شاید یہ یاد نہیں کہ ان کے نانا اور ماں نے ”عوامی سیاست“ کی تھی۔ عوامی سیاست نہ کر کے وہ عوام سے دور ہو رہے ہیں۔ پارٹی اس کا خمیازہ مسلسل بھگت رہی ہے۔ دوسری طرف سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف اور سید یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین نیب کے تقرر کے بعد اپنے خلاف کرپشن مقدمات کی فائلیں کھل جانے کا بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی ورکرز سے دوری مزید بڑھ جائے گی۔ پارٹی کے مرکزی رہنما اور 5 سال مسلسل اقتدار میں رہنے والے چودھری احمد مختار، راجہ ریاض، قمر الزمان کائرہ، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی جیسے لیڈر اب عوام کے پاس آنے اور ان سے رابطے بڑھانے کو تیار نہیں۔ گیارہ مئی کے بعد ہونیوالے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی یہی پالیسی جاری رہی تو بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف اس سے آگے نکل جائے گی۔
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) سابق صدر آصف علی زرداری کا بیرون ملک قیام کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما¶ں نے ملک کے اندر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کردیا ہے۔11مئی کے عام انتخابات میں خوفناک شکست کے بعد پارٹی کے مرکزی رہنما¶ں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد نہ تو پارٹی کی تنظیم نو ہو سکی اور نہ ہی پرانے پارٹی عہدیدار کام کررہے ہیں اس صورتحال کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے کارکن بیگانگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ پی پی کے قومی اسمبلی و سینٹ میں اپوزیشن لیڈرز صرف پریس کانفرنس کرکے ہی اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں یا چودھری اعتزاز احسن نے ملک میں مہنگائی کے خلاف لاہور میں احتجاجی ریلی نکالی جس میں صرف 200 سے بھی کم افراد موجود تھے۔ پیپلز پارٹی کی تنظیم نو میں تاخیر کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پارٹی کا شیرازہ آہستہ آہستہ بکھر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس بلدیاتی انتخابات کے بارے میں کوئی ہوم ورک نہیں ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے پارٹی ایک صوبے میں نظر آرہی ہے باقی تینوں صوبوں میں پیپلز پارٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار پیپلز پارٹی کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار سابق صدر آصف زرداری کو قرار دے رہے ہیں جو ملک سے باہر جا چکے ہیں۔