• news

لگتا ہے وفاقی ‘ صوبائی حکومتیں آئین کو نہیں مانتیں : سپریم کورٹ ‘21 اکتوبر تک بلدیاتی الیکشن کی تاریخ دی جائے: عدالت کی آخری مہلت

لاہور (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے حکومت اور الیکشن کمیشن کوبلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ مقررکرنے کےلئے 21 اکتوبر تک آخری مہلت دیدی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی برداشت نہیں ہوگی، سپریم کورٹ کا فیصلہ کوئی مذاق نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کیس کی سماعت شروع کی تو الیکشن کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ تین صوبوں نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق قوانین اور قواعد بنالیے ہیں، خیبر پی کے میں قانون اورحلقہ بندیوں کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا لہٰذا انہیں مزید مہلت دی جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئین کو نہیں مانتے تو پھر کس کو مانتے ہیں، صرف ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ اگر بلدیاتی قانون میں ترمیم نہ کی جاتی تو ادارے اب بھی کام کر رہے ہوتے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کرا دئیے ہیں تو بلدیاتی انتخابات بھی کرانے کی ہمت کرے کچھ نہیں ہوتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس سماعت سے یہ تاثر مل رہا ہے جیسے بلدیاتی انتخابات سے ہمیں کوئی فائدہ ہوگا۔ میں نے یا کسی اور جج نے کونسلر کا الیکشن نہیں لڑنا۔ آئین کا یہ منشا ہے کہ سیاسی اور مالیاتی اختیارات مقامی حکومتیں استعمال کریں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں 90 روز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے اعلانات کئے مگر وعدہ پورا نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت پنجاب کی طرف سے دسمبر میں تاریخ دینے کی کیوں بات کی جاتی ہے اب کیوں نہیں۔ 18ماہ گزر چکے ہیں آپ صرف تاریخ پر تاریخ مانگ رہے ہیں ہم صرف آئین پر عمل داری چاہتے ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہا کہ حلقہ بندیاںکرانا الیکشن کمشن کا کام نہیں صوبائی حکومتوں کا کام ہے الیکشن کمشن نے دو ہفتوں کی مزید مہلت طلب کی توجسٹس جواد ایس خواجہ سے کہا جب آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہو تو چھٹی منسوخ کردینی چاہیے۔ اٹارنی جنرل، سیکرٹری الیکشن کمشن اور ڈی جی الیکشن عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے گئے؟ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد آئین اور جمہوریت کا تقاضہ ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے حوصلہ پیدا کریں، دل بڑا کریں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ایسا تاثر ملتا ہے جیسے عدالت آئین کی پاسدار ہے اور آپ مخالف ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے بلدیاتی الیکشن لڑنا ہے نہ انہیں کوئی فائدہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 140 اے پر عمل کر کے الیکشن کرانا ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات سے متعلق سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر عمل کریں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل سے کہا آپ کو 7 دن دیتے ہیں فیصلہ کر لیں ورنہ ہم فیصلہ دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عید کی چھٹیاں ہیں، تاریخ بڑھا دیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، آپ عید کی چھٹیاں منانے کی بات کر رہے ہیں، چھٹیوں کی بجائے کام کریں۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے عدالت کو بتایا کہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق کسی صوبے نے مکمل تیاری نہیں کی۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب نے قانون سازی کر کے رولز بنا لئے ہیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ آپ آئین کو نہیں مانتے تو کس کو مانتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ قوانین بن چکے ہیں، جلد انتخابات کرا دیں گے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جو کام بلدیاتی اداروں کا ہے وہ صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں۔ کیوں نہ بلدیاتی اداروں کی اختیارات استعمال کرنیوالی صوبائی حکومت کے اختیارات منجمد کر دئیے جائیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن کرانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کونسی سنجیدہ کوشش ہے کہ ساڑھے تین سال میں پوری نہیں ہوئی۔ این این آئی کے مطابق وفاق کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ و ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز پیش ہوئے اور انہوں نے معزز عدالت سے مہلت دینے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے استفسار کیا کہ 90 دن میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ وعدہ کہاں گیا؟ ایک سال سے زائد عرصہ گزر گیا لیکن عدالت کے حکم پر عمل نہیں ہورہا، عدالت کا حکم مذاق نہیں ہوتا۔ عدالت نے اگر کہا کہ ایک ہفتہ میں الیکشن کرا دیں تو پھر کیسے کرائیں گے۔ عدالت گزشتہ 18 ماہ سے کہہ رہی ہے کہ آئین کی کتاب پر عمل کرو مگر یہاں قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ جب آپ نے عام انتخابات کرا دئیے تو بلدیاتی انتخابات کرانے میں کیا مسئلہ ہے، 2010ءسے بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جا رہے، لگتا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں آئین کو نہیں ما نتی۔ الیکشن کمیشن کے دفتر سے ہر ہفتہ حکومت کو یا ددہانی کا خط جانا چاہیے تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن کرانے کیلئے اب تک قانون سازی ہی نہیں کی گئی۔ یہ الیکشن ہم اپنے لئے نہیںکرا رہے بلکہ آئین کے ٹائم فریم کے مطابق بدیاتی الیکشن کرانے کا کہہ رہے ہیں تاکہ آئین کی پاسداری ہو۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا اختیارات دوسرں کو سونپا مشکل کام ہے، صوبائی حکومتیں دل چھوٹا نہ کریں، اختیارات منتقل کریں۔ فیڈریشن کا یہ مطلب نہیں کہ جو چاہے کرے، ایسا ہے کہ تو پھر عام انتخابات بھی دس سال بعد کرائے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے عدالت کو بتایا کہ بلدیاتی الیکشن کے لئے بلدیاتی اداروں کے رولز وضع کرنے اور حلقہ بندیوں کے بعد حکومت کی طرف سے الیکشن کرانے کی الیکشن کمیشن کو ریکوزیشن دینے کے بعد الیکشن کمیشن کا کام شروع ہوتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بلدیاتی الیکشن کی ذمہ داری بھی الیکشن کمیشن پر آگئی ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں بلدیاتی الیکشن کیلئے بلدیاتی اداروں کے رولز وضع کریںاور حلقہ بندیاں کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کو ریکویشن بھیجیںہم الیکشن کرادیں گے، اسکے لئے سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن