سیاست دانوں کے بچپن کی عیدیں۔۔۔۔۔شیخ رشید، چوہدری جعفراقبال،ذمردخان،لیاقت بلوچ اور عابدہ حسین سے بات چیت
محمد ریاض اختر
عید اور بچپن ایک دوسرے سے لازم و ملزوم کی ریشمی ڈوری میں بندھے ہوتے ہیں انسان تمام عمر بچپن کی حسین یادوں کی شمع فروزاں رکھ کر زندگی کو شاد اور سرور رکھتا ہے۔ سیاستدان بھی عید کی خوشیاں اپنے انداز سے منا کر اظہار یکجہتی اور اخوت کا پیغام دیتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ دنوں سیاست دانوں سے پوچھا کہ وہ بچپن میں عید کیسے گزارتے ہیں اس حوالے سے سیاستدانوں نے دلچسپ باتیں شیئر کیں۔ ان کی یادوں کے منتخب حصے نذر قارئین ہیں۔
٭ زمرد خان.... سرپرست اعلیٰ پاکستان سویٹس ہومز سابق چیئرمین پاکستان بیت المال
میں نے اپنی زندگی بیت المال اور سویٹس ہومز کے یتیم بچوں کے نام کردی ہے۔ سویٹس ہومز کے 3011 بچے اور 100 بچیاں میری اولاد کی طرح ہیں گویا میں واحد سیاست دان ہوں جو اتنے بچوں کے پاپا جانی ہیں میری خوشیاں ان کے دم سے ہیں ان شاءاﷲ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہمارے گھر کا جوائنٹ سسٹم ہے ماشاءاﷲ میرے چھ بھائی ہیں ہمارے گھر میں تین دن قربانی ہوتی ہے۔ میرے دادا جانی الحاج شہر باز خان زمیندار تھے‘ وہ خود جانور پالتے اور پھر پہلے دوسرے اور تیسرے روز قربانی کر کے اس کا گوشت تقسیم کرتے‘ ہمارے گھر کی یہ خاندانی روایات ہے کہ ہم گوشت سارا تقسیم کر دیتے ہیں اس کے ساتھ تینوں دن گھر میں گوشت پکا کر مہمان نوازی کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے ۔ میرے دادا جان 2005ءمیں اﷲکو پیارے ہو گئے ان کے بعد میرے والد محترم خدا بخش ما شاءاﷲ حیات ہیں ان کی عمر 80 برس ہے اب وہ ان روایات کے امین ہیں۔ میں بچپن میں جانور کے ذبح کرتے وقت وہاںساتھ ساتھ رہتا۔ آج بھی جانور خود ذبح کرکے خوشی ہوتی ہے۔ صرف دو عیدیں میں پاکستان میں گزار نہ سکا۔ 2011ءمیں حج کی سعاد ت حاصل کی اور ایک بار برطانیہ میں تھا اب مین خدام الحجاج کی حیثیت اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہوں اس بار بھی اﷲ نے یہ سعادت میرے نصیب میں درج کی ہے۔
٭شیخ رشید احمد .... صدر عوامی مسلم لیگ
بچپن‘ عید اور ماں .... کیا بات ہے کہ ان لمحات کی جب آپ کے سر پر ماں کی محبتوں کا سایہ موجود ہو‘ یقین کریں والدہ ماجدہ کی سرپرستی میں گزرنے والا ہر دن عید کہلاتا ہے۔ ہم پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں ہمارے گھر میں جانور ہمیشہ میری پسند کا آتا تھا بچپن میں دنبہ پسند کرتے تھے آج ٹائم کم ہوتا ہے اس لئے جانور میرے بھتیجے پسند کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں قربانی پہلے اور دوسرے روز ہوتی ہے سارا گوشت تقسیم کرتے ہیں اور اب لال حویلی میں عید کے تمام دونوں دن مہمان نوازی ہوتی ہے۔ پہلے دو دن بھرپور خوشی میں گزرتے ہیں۔ عید کی خوشیاں ویسی کی ویسی ہیں مگر میری ماں نہیں۔ عید کے دن کاآغاز سب سے پہلے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت اور دعا کر کے کرتا ہوں‘ اﷲکریم پورے پاکستان میں خوشیوں کے چراغ یوں ہی روشن رہیں۔
٭سینیٹر چوہدری جعفر اقبال.... مرکزی راہنما پاکستان مسلم لیگ
ہم بچپن میں اپنے بزرگوں کی سرپرستی میں عید مناتے تھے۔ والد محترم چوہدری محمد اقبال اور چچا محمد اشرف (عشرت اشرف کے والد گرامی) کے ہمراہ جعفر آباد چک نمبر 105 بی کی مرکزی جامع مسجد میں نماز عیدادا کرتے تھے۔ قربانی ادا کی جاتی، نماز عید کے بعد اپنے والد محترم اور چچا کی قیاد ت میں غریب بچوں میں دس دس روپے عیدی تقسیم کرتے۔ہمارے ڈیرے پر ہمیشہ اپنے جانوروں کی قربانی کی جاتی تھی عموماً ہمارے یہاں عید کے پہلے دو روز جانور قربان کئے جاتے تھے۔ ہم مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ تھے میرے محترم والد نے رحیم یار خان‘ گجرات اور اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں بڑے دسترخوان لگائے تھے۔ مہمان نوازی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، میرے والدین گجرات میں مدفون ہیں۔ جبکہ میرے چچا چوہدری اشرف میاں رحیم یار خان میں آسودہ خاک ہیں۔ میں عید سے قبل گجرات والدین کی قبروں کی زیارت کر کے آیا تھا‘ ہمارے یہاں عید کے تمام دن عید دستر خوان وسیع رہتا ہے۔ اپنے والد کے بعد میں اور اب میرا صاحبزادہ محمد عمر جعفر ایم پی اے یہ سلسلہ آگے بڑھا رہا ہے۔ گویا خدمت و محبت کا یہ جذبہ نسل در نسل منتقل ہورہا ہے۔ ہماری عزت عظمت ، محنت اور پذیرائی بلکہ فراہمی رزق سب والدین کی دعا¶ں کی بدولت ہے۔
٭لیاقت بلوچ .... سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی
ہم اپنے بچن میں بکرے لے کر گلی محلوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ بکرے کو مہندی لگانا‘ سجانا اور دوستوں کو اپنے ”مہمان جانور“ کی زیارت کروانا ہمارا مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ ملتان شہر کے مرکزی باغ میں ہم نماز عید ادا کرنے جاتے تھے۔ نماز عید کے بعد ہمیں عیدی ملتی تھی۔ یہ رقم پانچ روپے سے کم ہوا کرتی تھی‘ اس وقت پانچ روپے بھی کئی دن میں خرچ ہوتے تھے۔ ہمارے گھر میں عید کی نماز کے عید قربانی ادا کی جاتی تھی‘ اب وہ بچپن کے وہ سنہری دن اور سنہری یادیں کہاں ....!!
٭بیگم عابدہ حسین .... سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ
عید کے دنوں میں ہمارے گھر میں بہت رونق ہوا کرتی تھی۔ قربانی ہوتی تھی۔ خوب مہمان نوازی کر کے ہم اہل خانہ اور خاندان بھر سے دعائیں لیتے تھے۔ مجھے اس تہوار کے موقع پر 100 روپے عید ملتی تھی۔ وہ سو روپے ہم تین دن میں خرچ کرتے تھے۔