• news

غازی قتل کیس۔ مشرف کو بچانے کی سازش کی جارہی ہے ۔ الشہداء فائونڈیشن

اسلا م آباد (اے پی اے + آن لائن +  آئی این پی) الشہداء فائونڈیشن کا عبدالرشید غازی قتل کیس میں شوکت عزیز‘ شیرپائو ‘ طارق عظیم اور سابق سیکرٹری دفاع‘ داخلہ کو  بھی تفتیش کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پرویزمشرف  کے اس بیان کہ  لال مسجد آپریشن کا فیصلہ انہوں نے اکیلے نہیں کیا بلکہ حکومتی سطح پر کیا گیا تھا کے بعد لال مسجد الشہدا فاؤنڈیشن کی جانب سے عبدالرشید غازی قتل کیس میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، سابق سیکرٹری داخلہ کمال شاہ، سابق آئی جی پولیس چوہدری افتخار اور ڈپٹی کمشنر محمد علی سمیت دیگر افراد کو بھی کیس میں نامزد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سلسلے میں عید کے بعد باقاعدہ درخواست دی جائے گی۔ دریں اثناء لال مسجد آپریشن کے بعد شہدائے لال مسجد و جامعہ حفصہ کے ورثا کو انصاف دلانے کے لئے قائم الشہداء فائونڈیشن لال مسجد نے انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کے نام درخواست میں الزام لگایا ہے  لال مسجد کیس کے مرکزی ملزم پرویز مشرف کو  مسجد کیس کی کمزور تفتیش کے ذریعے ضمانت دلا کر ملک سے فرار کرانے کی سازش کی جارہی ہے‘ پرویزمشر ف کو علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں ضمانت ملی اور وہ ملک سے فرار ہوئے  یا عبدالرشید غازی قتل کیس کی تفتیش میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ہوئی تو اس کی ذمہ داری اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران اور ڈی آئی جی خالد خٹک کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی تفتیشی ٹیم پر عائد ہوگی اس صورتحال کا نوٹس لے کر ڈی آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی تفتیشی ٹیم کو حکم دیا جائے کہ وہ مدعی ہارون الرشید غازی اور دیگر گواہان کے بیانات قلم بند کریں اور پرویزمشرف کو بچانے کے لئے سرگرم اسلام آباد پولیس کے اندر موجود مافیا کے سازشی منصوبوں کو ناکام بناتے ہوئے پرویزمشرف کے خلاف تفتیش کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔ آئی جی اسلام آباد کے نام درخواست میں کہا گیا ہے  الشہداء فائونڈیشن آف پاکستان کا دائرہ کار اب صرف شہدائے لال مسجد و جامعہ حفصہ تک ہی محدود نہیں بلکہ اسے قبائیلی علاقوں میں ڈرون حملوں سے شہید ہونے والے افراد تک بڑھا دیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے  3 سے 10جولائی2007تک اسلام آباد کے عین وسط میں واقع لال مسجد اور دنیا کی سب سے بڑی طالبات کے دینی درسگاہ جامعہ حفصہ پر پرویزمشرف کے حکم پر بدترین خونی آپریشن مسلط کیا گیا۔ مشرف کے حکم پر  خونی آپریشن کے سات دنوں میں لال مسجد و جامعہ حفصہ کے اندر موجود  سینکڑوں طلبہ و طالبات علامہ عبدالرشید غازی اور ان کی اسی سالہ ضعیف العمر والدہ کے ہمراہ شہید ہوئے۔آپریشن کے اختتام پر سینکڑوں معصوم طلبہ و طالبات کی میتوں کی بدترین بے حرمتی کی گئی۔ ان پر فاسفورس بم برسائے گئے ۔ شہداء کی میتوں پر تیزاب کے سپرے کرکے ان کے چہروں کو چھریوں سے مسخ کیا گیا۔ اس کے بعد ان سینکڑوں میتوں کو مع علامہ عبدالرشید غازی شہید کی والدہ کی میت کے لاپتہ کردیا گیا۔ مشرف کے حکم پر 7جولائی2007سے لال مسجد و جامعہ حفصہ پر مسلط کئے جانے والے بدترین خونی آپریشن میں 40,000 سے زائد قرآن پاک اور احادیث شریفہ کے نسخوں کو جلایا گیا اور پھر ان ہزاروں شہید شدہ نسخوں کو جامعہ حفصہ کے ملبے کے ساتھ نالے میں پھینک دیا گیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس بدترین خونی آپریشن کے بعد سے وفاقی پولیس نے آج تک دوہرے معیار کا ثبوت دیا ہے۔  اتنے بڑے قتل عام کے بعد وفاقی پولیس نے اپنا قانونی فرض ادا نہیں کیا۔ اسلام آباد پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس خونی آپریشن کے فوراََ بعد ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے تفتیش شروع کرتی۔ مگر چھ سال تک اسلام آباد پولیس نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ بالآخر 12جولائی2013کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے  جسٹس نورالحق قریشی نے علامہ عبدالرشید غازی شہیدکے بیٹے ہارون الرشید غازی کی درخواست پر جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا واضح حکم دیا۔ عدالت عالیہ کے واضح احکامات کے باوجود اسلام آباد پولیس بالخصوص تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او نے پرویزمشرف کے خلاف 50روز تک مقدمہ درج نہیں کیا۔ 2 ستمبر 2013کو ایس ایچ او تھانہ آبپارہ نے توہین عدالت کے نوٹس پر مجبور ہو کر پرویزمشرف کے خلاف  دفعہ 302 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کیا۔  اندراج مقدمہ کے بعد بھی وفاقی پولیس نے تقریباََ ڈیڑھ ماہ تک پرویزمشرف کے خلاف علامہ عبدالرشید غازی شہید اور ان کی والدہ کے قتل کے مقدمے میں جان بوجھ کر تفتیش شروع نہیں کی اور مختلف  تاخیری حربے استعمال کئے۔ پرویزمشرف کو عبدالرشید غازی قتل کیس میں گرفتار تو کرلیا گیا مگر اب بھی وفاقی پولیس پرویزمشرف کواس مقدمے میں بچا کر پاکستان سے فرار کرانے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ شائد وفاقی حکومت کی طرف سے پولیس کو ہدایات مل گئی ہوں گی کہ پرویزمشرف کو ہرصورت بچانا ہے۔ اس لئے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سینکڑوں شہداء کے قاتل پرویزمشرف کو میاں شریف فیملی کے ذاتی مفادات کے لئے باحفاظت پاکستان سے رخصت کرنے کے لئے کچھ روز قبل سعودی حکام سے معاملات طے کرچکے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے  الشہداء فائونڈیشن  کو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وفاقی پولیس پرویز مشرف کو عبدالرشید غازی قتل کیس میں بچانے کے لئے سرگرم ہوچکی ہے۔ ہارون الرشید غازی کی طرف سے بارہا پولیس سے ڈی آئی جی خالد خٹک کی سربراہی میں قائم تفتیشی ٹیم کے ممبران سے رابطہ کیا جارہا ہے کہ ہم سے پرویز مشرف کے مجرم ہونے کے حوالے سے ثبوت لیں، ہمارا بیان ریکارڈ کریں۔ مگر اسلام آباد پولیس کا ایک بھی افسر ہم سے پرویز مشرف کے خلاف دستاویزی ثبوت اور ہمارے بیانات قلم بند کرنے کے لئے تیار نہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے، ہم جمیل ہاشمی کی ہدایت کے مطابق 14اکتوبر 2013کی شام پانچ بجے ہارون الرشید کے ہمراہ پرویزمشرف کے خلاف لال مسجد آپریشن کے حوالے سے دستاویزی ثبوت اور بیانات قلم بند کرانے تھانہ آبپارہ پہنچے تو تھانہ آبپارہ کے مین گیٹ پر موجود پولیس اہلکار نے ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔  دس منٹ  بعد ہمیں اندر جانے کی اجازت ملی۔ ابھی ہم تھانے کے اندر داخل ہی ہوئے تھے کہ ایس ایچ او تھانہ آبپارہ غلام قاسم خان نیازی  تھانے سے بھاگ گئے۔ ہم  اے ایس پی یاسر آفریدی کے آفس میں گئے تو یاسر آفریدی یہ کہتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھ گئے کہ’’I am not in office‘‘۔ اس کے بعد یاسر آفریدی نے طارق اسد کے ساتھ نہایت بدتمیزی کی تقریباََ پندرہ منٹ تک یاسر آفریدی کے حکم پر ہمیں ایس ایچ او کے آفس میں مبحوس رکھا گیا۔ بعدازاں طارق اسد کے آپ سے رابطہ کرنے پر ہمیں تھانہ آبپارہ سے نکلنے کی اجازت ملی  تاہم ہمارا بیان قلم بند نہیں کیا گیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان سب واقعات سے معلوم ہوتا ہے  اسلام آباد پولیس پرویز مشرف کو عبدالرشید غازی قتل کیس میں بچانے کی سازش کررہی ہے۔ ہم پولیس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں کہ ہم سے ثبوت لو، ہمارے بیانات قلم بند کرو۔ مگر وہ ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں۔  اس صورتحال کا نوٹس لیا جائے اور ڈی آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی تفتیشی ٹیم کو حکم دیا جائے کہ وہ مدعی ہارون الرشید غازی اور دیگر گواہان کے بیانات قلم بند کریں۔

ای پیپر-دی نیشن