عید،ٹیسٹ میچ میں فقیدالمثال کامیابی اور ہمارے مسائل
عید،ٹیسٹ میچ میں فقیدالمثال کامیابی اور ہمارے مسائل
ماضی کی طرح گزشتہ روز بھی دنےا کے کونے کونے میں موجود اہل اسلام نے دس ذوالحج کو سُنتِ ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے عیدالاضحی کا تہوار بڑے تزک و احتشام سے منایا۔ فرزندِ توحید نے اس روز کروڑوں جانوروں کو ذبح کیا، ان کا گوشت خود کھایا اور عزیزوں و رشتہ داروں اور پڑوسیوں اور مستحق افراد میں تقسیم کیا۔ خدا کے ہاں ہماری دی ہوئی قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ قربانی کے جانوروں کی خریداری کی قیمت اور دیگر اخراجات پہنچتے ہیں۔ اللہ کے حضور تو قربانی کرنے والے کے خلوصِ نیت کا حساب ہوتا ہے۔ قربانی کا فلسفہ ہی ایثار اور دوسروں کیلئے خود کو وقف کر دینا ہے۔ اس سے ہم بطور معاشرہ تہی دامن نظر آتے ہیں۔یوں تو ہم بطور معاشرہ اخوت و بھائی چارے کے شدید فقدان سے دوچار ہیں۔ ہر طرف ایک افراتفری اور انارکی کی کیفیت ہے ۔ ہم جمہوریت کو بہترین سسٹم گردانتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم جن کی نقالی کرتے ہیں ان کی دیگر اقدار کو فالو نہیں کرتے۔ وہاں جمہوریت کے نام پر انسانی رائے کا اس طرح قتل نہیں ہوتا جس طرح ہمارے ہاں انتخابات کے نام پر ہوتا ہے۔ ایسا ہی مئی 2013ءکے انتخابات میں بھی ہُوا۔ اسی وجہ سے ہم خوشیوں سے دور جبکہ مسائل اور مصائب کے گرداب میں پھنسے رہتے ہیں۔ انہی مشکلات میں گِھرے ہوئے تھے کہ کرکٹ ٹیم نے عید کی خوشیوں میں اضافہ کر دیا۔ پاکستان نے ٹیسٹ رینکنگ میں دنیا کی نمبر ون ٹیم جنوبی افریقہ کو سات وکٹوں سے شکست دیدی۔ جہاں میرے سامنے بی بی سی کی دلچسپ رپورٹ ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا انداز سب سے منفرد ہے کہ نہ کھیلنے پر آئے تو عالمی رینکنگ کی سب سے نچلی ٹیم زمبابوے سے بھی ہار جائے اور جب اپنے موڈ میں ہو تو عالمی نمبر ایک ٹیم بھی اس سے نہ بچ پائے۔ گزشتہ سال اسی ابوظہبی میں اسوقت کی عالمی نمبر ایک انگلینڈ کی ٹیم پر بھی حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے اور آج کی عالمی نمبر ایک جنوبی افریقی ٹیم بھی حیران ہے کہ کیا یہ وہی پاکستانی ٹیم ہے جسے اس نے صرف دس ماہ پہلے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا لیکن ابوظہبی میں سب کچھ بدل گیا۔ایک کے بعد ایک گرنے والی تین وکٹوں نے جوہانسبرگ ٹیسٹ یاد دلا دیا جب پاکستانی ٹیم اپنی تاریخ کے سب سے کم سکور 49 پر ڈھیر ہوئی تھی لیکن اس بار ذہنوں میں آنے والے وسوسے کپتان مصباح الحق نے دور کر دئیے۔ پہلی اننگز میں بہتر پوزیشن میں بیٹنگ کر کے سنچری بنانے والے مصباح الحق نے دوسری اننگز میں خود کو اسی پوزیشن میں پایا جس میں وہ ابتدائی وکٹیں جلد گرنے کے بعد عام طور پر بیٹنگ کرتے ہیں لیکن پُرسکون اور اعتماد سے وہ ٹیم کو ایک یادگار جیت سے ہمکنار کر گئے۔ تیسرے دن چار اہم وکٹیں حاصل کر لینے کے باوجود مصباح کو بخوبی اندازہ تھا کہ جنوبی افریقی ٹیم آسانی سے قابو نہیں آئے گی اسی لئے انہوں نے تمام وقت اپنے چاروں بولروں کو عمدگی سے استعمال کرتے ہوئے دباو¿ برقرار رکھا۔ نائٹ واچ مین ڈیل سٹین اور جے پی ڈومینی کی وکٹیں پاکستان کو جلد مل گئیں۔ لیکن اصل خطرہ اے بی ڈی ولیئرز سے تھا جو اسی گراو¿نڈ پر تین سال پہلے پاکستانی بولنگ پر ڈبل سنچری بنا چکے تھے ان کی مزاحمت سنچری سے دس رنز کی کمی پر ختم ہوئی تو گریم سمتھ نوشتہ¿ دیوار پڑھ چکے تھے۔ رابن پیٹرسن نے پاکستان کے خلاف کیپ ٹاو¿ن کی بیٹنگ کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی لیکن سعید اجمل کے مہلک وار نے ڈوپلیسس، فلینڈر اور مورکل کو شکار کر لیا اور پیٹرسن کے ہاتھ کچھ بھی نہ بچا۔
کل کی ماٹھی ٹیم جب متحد اور یکجان ہو کر کھیلی تو دنیا کی بہترین ٹیم کو بھی ڈھیر کر دیا۔ مصباح کو کامیاب کپتان نہیں سمجھا جاتا جب اس نے محنت کی تو کھوٹے سکے اور نئے کھلاڑی بھی چل پڑے اور ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ ہمیں قومی سیاست میں بھی ایسے ہی جذبے کی ضرورت ہے۔ میاں نواز شریف اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ ان کو مصباح کی طرح کا ناکام کپتان کہا جائے۔ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کو بہت سی خوشیاں دے سکتے ہیں۔ ان کے پاس اچھے لوگ ہیں لیکن ان سے آگے نہیں لایا جاتا۔ آگے وہی ہیں جو کل مشرف اور زرداری کے مہرے تھے اور انہوں نے ہی زرداری اور مشرف کو ڈبویا تھا۔ نواز شریف نے جو اپنی پارٹی سے لوگ لئے ہیں ان میں اکثریت انہی کی ہے جو پہلے دو بار ان کو ڈبو چکے ہیں۔ اب یہ سب مل کر نواز لیگ کا سفینہ جلد ڈبو دیں گے۔
قوم و ملک کو بحرانوں نے نکالنے کیلئے کسی راکٹ سائینس کی ضرورت نہیں آپ کو سب کچھ جمہوری اصولوں کے مطابق کرنا ہو گا، صرف ذاتی مفادات کی سیاست سے بالاتر ہو جائیں تو کامیابیاں قدم چومتی نظر آئیں گی۔ عوام آپ کے شانہ بشانہ ہونگے۔ دوسری صورت میں روسیاہی کے سوا آپ کو کچھ ملے گا نہ ملک و قوم کے حصے میں کوئی بہتری آئے گی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نواز لیگ کی قیادت نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا نہ اپنے ماضی سے اور نہ ہی اپنی پیشرو زرداری حکومت سے، جس کو عام انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آج کی حکومت گزشتہ حکومت کی لوٹ مار نکلوا لیتی تو اسے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا نہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانا پڑتے جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن بن کر رہ گئی ہے۔ دوسروں کی کرپشن اگلوانے کیلئے خود کا پارسا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس طرف نواز لیگ کی قیادت آنے پر تیار نظر نہیں آتی۔ اپنی چوری چھپانے کیلئے حریفوں کی ڈکیتیوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ چئیرمین نیب کی تقرری یقیناً ملی بھگت سے کی گئی ہے۔ زرداری صاحب کے کیس ان کو ملک سے بحفاظت روانہ کرنے کے بعد کھولے گئے۔ لگتا ہے کہ مک مکا کے نتیجے میں بننے والے چئیرمین کی ذمہ داری شریف خاندان اور زرداری کے مقدمات کھول کر ان کو ہمیشہ کیلئے بند کر دینا ہوگا۔ ایسا ہُوا تو نواز لیگ کو بھی پیپلز پارٹی جیسی بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی ایک جھلک فیصل آباد میں اپنے گڑھ میں صوبائی سیٹ پر شکست کی صورت میں دیکھ لی ہے ۔