ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
قومی بقاءو عزت کےلئے اداروں کا مستحکم ہونا اور ان اداروں کے سربراہان کا نہایت اہل، دیانت دار اور بلند کردار ہونا بھی ایک اہم ضرورت ہے ہمارے آج کے تازہ ترین دگرگوں حالات میں سیاسی تناو¿ اور مفاداتی دھڑے بندیوں نے اداروں کی ساکھ کو بہت متاثر کیا ہے اس پر طرہ یہ کہ اداروں کے سربراہان کی سیاسی وابستگیوں نے اداروں کو خانہ زاد لونڈیوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے لیکن فطرت کے طریقے اپنی جگہ اٹل ہوتے ہیں۔ غلبہ فطرت کے لئے خرابی ہی سے خوبی کی راہیں میسر آتی ہیں اور اچھے حالات کی امیدیں قطرے سے سمندر کی جانب لے کر چلتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں بہت سے دماغ اور بہت سے دل خلوص کی دولت سے مالا مال ہیں وہ بُرے حالات میں بھی اچھائی کا چلن ترک نہیں کرتے۔ وہ ذاتی اور گروہی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ اور اقرباءپروری کے اس اندوہناک ماحول میں بھی فطرت کا راستہ روشن منزل کا پتہ دے رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کی تقرری پر جمہوری حکومت اور حزبِ اختلاف میں ایک عرصے سے مذاکرات جاری تھے اور بہت چھان پھٹک، احتیاط کے علاوہ فراست کے جملے مراحل سے گزرنے کے بعد اتفاق کی ایک صورت برآمد ہو گئی اور ایک باصلاحیت، نیک چلن، محنتی ، ذمہ دار طبیعت کے مالک قمرالزمان چودھری کے نام پر اتفاق ہو گیا۔ اگرچہ دیگر زیر غور ناموں کے علاوہ بہت سے دیگر اہل اور مناسب افراد بھی اس بڑی ذمہ داری کو ادا کر سکتے تھے ان میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اعجاز احمد چودھری ایک درویش صفت اور خاموش طبیعت بااصول شخص کا نام نہایت نمایاں ہیں وہ ایک دیندار اور دھڑوں سے آزاد وجود بے ربا نام ہے جو حضور داتا گنج بخشؒ کی تعلیمات کا نقیب ہے ان کے علاوہ جسٹس (ر) رضا فاروق کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا ایک بہترین موقع تھا کہ ان کے جرا¿ت مندانہ عدالتی فیصلوں کے سبب ان کی ساکھ بہت مضبوط ہے۔ جسٹس ملک اختر حسن کا نام بھی ایک شریف النفس، باہمت اور غیر جانبدار افسر کے طور پر معتبر تھا مزید ناصر سعید کھوسہ اور طارق کھوسہ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعتراف قومی سطح پر موجود ہے کہ یہ لوگ اخلاص اور تندہی سے کام کرنے والے لوگ ہیں۔ جاوید چودھری پنجاب میں محتسب کے فرائض جس ہمت وخوبی سے سرانجام دے رہے ہیں وہ ان کی انتظامی خوبیوں اور قومی فلاحی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ جناب عبدالرو¿ف چودھری تو اب اپنی خدمات کا نذرانہ وفاقی محتسب کی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔ بہت سے نام نیب کے چیئرمین کے طور پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان زیر بحث آئے لیکن قرعہ فال قمر الزمان چودھری کے نام بالااتفاق نکلا۔ اہل سیاست اور ریاستی اداروں کے لئے یہ نام نیک فال اس لئے ہے کہ اس نام پر نہ صرف اتفاق ہے بلکہ قمر الزمان کی صلاحیتوں پر اعتماد ہے اور اس کی نیت پر اعتبار ہے۔ لیکن یہ غلغلہ بازار سیاست میں عجب ہے کہ لوگ اپنے سیاسی وجود کے اثبات کے لئے شفاف شیشے کے گھروں پر پتھر زنی کو قوم کی خدمت قرار دیتے ہیں اور نجانے پیشہ ور سیاسی تخریب کاروں کے مشورے پر ہر جائز کام کو بھی ناجائز تنقید کا نشانہ بنانے کی مشق کیوں کرتے ہیں؟ قمر الزمان پر سیاسی غلیل باز شوقیہ نشانے بازی کرتے ہوئے وہ باتیں کہتے ہیں جو بے سروپا ہوتی ہیں۔ قمر الزمان چودھری پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ضیاءالحق کے قریب رہے۔ انہوں نے نوازشریف کے دور میں ان کی قربت اختیار کی اور پیپلز پارٹی کے دور میں انہیں پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کا اعتماد حاصل رہا۔ اس لئے اس کو ایک منفی رویہ قرار دیا جائے۔ اہل سیاست اپنے حالات کو سدھارنے کے لئے ہر مشق فرما سکتے ہیں لیکن مہوش، تدبر اور انصاف کو بے وزن، ایک شخص جو اپنی پیشہ وارانہ دیانت اور اپنی انتظامی صلاحیت کے سبب امور سلطنت کو قومی مفادات کی خاطر نیک نیتی اور غیر جانبداری سے سرانجام دے تو یقیناً وہ ملک و ملت کی ایک ایسی ضرورت بن جاتا ہے جسے کوئی بھی حکمران فراموش یا نظرانداز نہیں کر سکتا۔ چاہیے وہ حکمران فوجی ہو یا سیاسی۔ نیک نیت اور خوش عمل افسر کے نزدیک وفاداری کا معیار کرسی پرستی نہیں بلکہ اداروں کے استحکام کے لئے اصول پرستی ہوا کرتی ہے وہ اپنے کام اور منصب سے انصاف کرتے ہوئے حکمرانوں کے عہد اور پارٹیوں کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ ریاست اور قومی کے مفادات کے استحکام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں انہیں ماہانہ مشاہرہ ملتا ہے وہ اسی پر اکتفا کرتے ہیں وہ پیشہ ور مفاد پرست سیاسی دھڑے بازوں کی طرح دباو¿ اور بحران سازی کا سلسلہ قائم نہیں کرتے قمر الزمان پر اعتراضات کا طوفان اٹھانے والے سیاست کار ہر دور کے حکمرانوں سے اپنے گروہی مفادات کی خاطر محبت کی پینگیں بڑھاتے رہے ہیں اور ان کے ریفرنڈم میں اپنا غیر جمہوری کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو قومی اتفاق پر مبنی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے اور اس کے فروغ کے لئے ہر موقع پر کوشش کرنا بھی سیاسی اخلاقی تقاضا ہے اور انہی اخلاقی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے امور سیاست انجام دینے سے ہی سیاسی ساکھ میں اضافہ ہوتا ہے عوام میں اعتبار بڑھتا ہے، اپنے وقار میں بلندی نصیب ہوتی ہے۔
قمر الزمان چودھری سے راقم الحروف کی پہلی ملاقات تب ہوئی تھی جب قومی ادارے .... لیکچر دینے کے لئے جانا ہوتا تھا وہاں پر بڑے ذہین، محنتی اور وطن دوست افسر سے ملاقات کا ایک سلسلہ تھا ۔ قمر الزمان سے تعارف حیات اللہ سنبل نے کروایا تھا۔ حیات اللہ سنبل متحدہ پاکستان کے زمانے میں بڑے بڑے حکومتی مناصب پر فائز رہے۔ حیات اللہ سنبل نہایت صاحب بصیرت، خاموش طبع، متدین پاکستان پرست آفیسرز میں شمار ہوتے ہیں اس وقت وہ نیپا کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ (جاری ہے)