”سینہ چاکانِ چمن کا مِلاپ؟“
عیدالاضحٰی کی نماز میں نے اپنے دونوں بیٹوں اور دو پوتوں کے ساتھ لندن میں "Collirers Wood" کی جامع مسجد ”دارالامان“ میں بنگلہ دیشی امام صاحب کی اقتداءمیں پڑھی۔ نمازیوں میں بنگلہ دیشی، پاکستانی اور فرانسیسی زبان بولنے والے کسی افریقی ملک کے مسلمان شامل تھے مجھے 43 سال اور 9 ماہ بعد کسی بنگالی امام صاحب کی اقتداءمیں نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ بہت ہی اچھا لگا، جنوری 1970ءمیں مجھے روزنامہ ”وفاق“ کی طرف سے مرکزی جمعیت علماءاسلام کے قائد مولانا احتشام الحق تھانوی کا دورہ "Cover" کرنے کے لئے مشرقی پاکستان بھجوایا گیا تو میں نے مولانا تھانوی کے ساتھ ڈھاکہ، چٹاگانگ، کومیلا، نواکھلی اور کئی دوسرے شہروں میں بنگالی امام صاحبان کی اقتداءمیں نماز پڑھی تھی۔ مولانا تھانوی کے جلسوں سے فارغ ہو کر میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے کئی پروفیسروں اور طالب علم لیڈروں سے ملا تھا جن کے ٹیلی فون نمبرز اور پتے مجھے روزنامہ ”امروز“ کے شفقت تنویر مرزا (مرحوم) اور اب واشنگٹن میں مستقل مقیم سید اکمل علیمی نے دیئے تھے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کا ماحول، مغربی پاکستان کے فوجی صدر جنرل یحییٰ خان، سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور صنعت کاروں کے خلاف تھا۔ میں تنگائل میں نیشنل عوامی پارٹی (چین نواز) کے صدر مولانا عبدالحمید بھاشانی کی ”کسان کانفرنس“ میں گیا اس میں بھی شکوے اور شکائتیں ہی تھیں۔ میں نے مسلم لیگ کے جناب نور الامین، نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد اور امیر جماعتِ اسلامی مشرقی پاکستان مولانا غلام اعظم کے انٹرویوز کئے۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعتِ اسلامی کے جلسہ عام میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے کارکنوں کو خون خرابہ کرتے بھی دیکھا۔ مولانا مودودی مرحوم ڈھاکہ پہنچ چکے تھے لیکن پلٹن میدان تک پہنچنے کے سارے راستے بند تھے وہ جلسہ عام سے خطاب نہیں کر سکے۔ میں نے مولانا صاحب سے انٹرویو کیا انہوں نے کہا ” یہ لوگ عوامی لیگ والے ملک کو متحد نہیں رکھنا چاہتے ان کی مرضی ہم نے تو بہت کوشش کی“
شیخ مجیب الرحمان نے ٹیلی فون پر، مجھ سے انٹرویو کا وعدہ کیا تھا میں ”دھان منڈی ڈھاکہ“ میں ان کے گھر پہنچا تو عوامی لیگ کے ایک کارکن نے مجھے چائے پلا کر کہا ”شیخ صاحب ڈھاکہ میں نہیں ہے۔ معلوم نہیں کب لوٹے گا“ مشرقی پاکستان میں غربت بہت تھی وہاں میں نے یہ جملہ بار بار سُنا کہ ”مرغی مہنگی، عورت سستی“ وہاں کی غریب عورتیں اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے اپنی عصمتیں فروخت کرنے پر مجبور تھیں، بیروزگاری بہت تھی اور شیخ مجیب الرحمان ”سوشلزم اور بنگلہ نیشنلزم“ کے نام پر عوام کی حمایت کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو ”سوشلزم (اسلامی سوشلزم) “ میں اپنے مسائل کا حل نظر آ رہا تھا۔ مذہبی جماعتوں کو عوام لفٹ ہی نہیں کرا رہے تھے۔
دسمبر 1970ءکے عام انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو گئی، پاکستان پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی اصولی طور پر شیخ مجیب الرحمان کو وزیراعظم ہونا چاہیے تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا لیکن جب شیخ مجیب الرحمان جنرل صاحب کو منتخب صدر بنانے کو تیار نہیں ہوئے تو انہوں نے سازشیں شروع کر دیں۔ اُدھر جناب بھٹو نے بھی قومی اسمبلی میں دوسری اکثریتی پارٹی کے قائد ہونے کی حیثیت سے اقتدار میں شرکت کا دعویٰ کر دیا ۔ عوامی لیگ نے بغاوت کر دی تو مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن ہوا، بھٹو صاحب نے کہا ۔ ”خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔“ جنرل یحییٰ خان گمنامی کی موت مر گئے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گئی، شیخ مجیب الرحمان اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے اور پاکستان کو دولخت کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والی بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہو گئیں مگر ان کے بعد کے حکمرانوں نے عبرت حاصل نہیں کی۔
میں لندن میں بنگلہ دیشی مسجد میں نماز پڑھ کر اپنے بیٹوں اور پوتوں سے عید ملا تو نہ جانے کیوں اپنی عمر کے چار پانچ بنگالیوں کو بھی گلے لگا لیا مجھے محسوس ہوا کہ گویا پاکستان اور بنگلہ دیش گلے مل رہے ہیں۔ مجھے تحریک پاکستان کے مجاہد اور ”تحریک تکمیل پاکستان“ کے بانی صدر اور پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد پاکستان کے تاحیات وفاقی وزیر جناب محمود علی یاد آ گئے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کو اپنا وطن نہیں بنایا ۔ 17 نومبر2006ء کو انتقال ہوا تو اسلام آباد میں دفن ہوئے مرحوم کہا کرتے تھے کہ ”نہ صرف جغرافیائی بلکہ نظریاتی طور پر بھی پاکستان کی تکمیل ہونا باقی ہے اور وہ اس طرح کہ ”علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے افکار و نظریات کے مطابق پاکستان کو اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنایا جائے“ تحریک پاکستان اکتوبر 1985ء میں قائم ہوئی تو اس کے سیکرٹری جنرل تحریک پاکستان کے ایک اور کارکن اور معروف صحافی جناب ظہور عالم شہید اُس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور ان کی وفات کے بعد 1988ءمیں سید شاہد رشید، شاہد صاحب کئی سالوں سے جناب مجید نظامی کی چیئرمین شپ میں سرگرم ”نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔
جناب محمود علی سے میرا تعارف (وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں) میرے ایک ”لہوری دوست“ انفارمیشن گروپ کے جناب ایف ڈی مسعود نے کرایا تھا۔ پھر محمود علی صاحب سے میرا تعلق تاحیات رہا۔ مرحوم کئی بار لاہور میں میرے دفتر بھی تشریف لائے۔ محمود علی صاحب کے چچا زاد جناب مشتاق علی لندن کے علاقہ ساو¿تھ برڈ فورڈ لندن میں رہتے ہیں ان سے میری لاہور اور اسلام آباد میں جناب محمود علی کے ساتھ ملاقات ہو چکی تھی۔ مشتاق علی صاحب کے والد جناب منور علی اور ان کے بڑے بھائی مولوی مجاہد علی (محمود علی صاحب کے والد) دونوں علی گڑھ یونیورسٹی کے لاءگریجویٹ تھے۔ جناب منور علی، مشرقی بنگال اسمبلی کے رکن اور آسام کے وزیر قانون بھی رہے۔ جناب محمود علی 1957-58ءمیں مشرقی پاکستان کے وزیر مال رہے تو انہوں نے وہاں زمینداری سسٹم ختم کرنے کے لئے زرعی اصلاحات کرائیں۔ میرے بیٹے انتظار علی چوہان کا گھر جناب مشتاق علی کے گھر سے 19 میل دور تھا لیکن میں نے ”پتن چناہ دا“ پار کر ہی لیا۔ جناب مشتاق علی اور ان کی اہلیہ محترمہ سلینہ علی ہمیں مل کر بہت خوش ہوئے اور محترم مجید نظامی صاحب کا حال احوال پوچھا۔ مشتاق علی صاحب نے کہا ”اثرچوہان صاحب! مجید نظامی صاحب بے حد مخلص انسان ہیں میں اور میرے خاندان کے سبھی لوگ ان کے بے حد ممنون ہیں کہ ان کی کوششوں سے پنجاب یونیورسٹی میں ”محمود علی چیئر“ قائم کر دی گئی ہے اس طرح سے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز، سکالرز اور طلبہ کو جناب محمود علی کی قومی خدمات سے واقفیت ہو سکے گی۔ محترم مجید نظامی خود"Living Legend" ہیں تحریک پاکستان اور پھر استحکام پاکستان کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ میں نظامی صاحب کی بڑے بھائی کی حیثیت سے عزت کرتا ہوں۔“
جناب مشتاق علی 1961ءمیں اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ آئے تھے پھر یہیں کے ہو لئے۔ وہ ریٹائرڈ چارٹرڈ کیمیکل انجینئر ہیں۔ کہتے ہیں کہ ”بھائی جان محمود علی مجھ سے، 20 سال بڑے تھے۔ انہوں نے ہی سلینہ سے 1973ءمیں کراچی میں میری شادی کرائی تھی۔ ہم دونوں پاکستانی ہیں اور ہمارا بیٹا اور بیٹی بھی۔ محترمہ سلینہ علی نے کراچی سے انگلش اور لائبریری سائنس میں ماسٹرز کیا تھا اور لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ ایفریقن سٹڈیز سے لائبریرین کی حیثیت سے ریٹائر ہو چکی ہیں۔ ان کے بیٹے فواد ایم علی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور بیٹی نادیہ بشریٰ علی نے لندن سکول آف اکنامکس سے قانون کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ محترمہ سلینہ علی نے بتایا کہ ”میں نے اپنے بیٹے کی شادی پر دُلہن کے کپڑوں اور دوسرے سامان کی خریداری پاکستان سے کی تھی بیٹی کی شادی کے لئے خریداری بھی پاکستان سے ہی کروں گی۔“ جناب محمود علی کا بیٹا جمال محمود اور دو بیٹیاں ریٹا محمود اور بیٹا محمود امریکہ میں ہیں اور تیسری بیٹی شہلا محمود کینیڈا میں۔
جناب محمود علی جغرافیائی اور نظریاتی طور پر پاکستان کی تکمیل کی حسرت لے کر اس دارِفانی سے عالمِ جاودانی میں کوچ کر گئے لیکن اس مشن کو جناب مجید نظامی جاری رکھے ہوئے ہیں " Pakistan Bangladesh brother hoods" بہت ہی متحرک تنظیم ہے۔ ایسٹ لندن میں بنگلہ دیشی بھائیوں کی اکثریت ہے وہاں ایک بہت بڑی بلڈنگ کے مالک ایک بنگلہ دیشی ”شکور بھائی“ ہیں جہاں زیادہ تر کرائے دار پاکستانی ہیں۔ میرے بیٹے انتصار علی چوہان کی "Law Firm" کا دفتر بھی اسی بلڈنگ میں ہے میں شکور بھائی سے جپھی ڈال کر ان سے " Brother hoods" یعنی برادرانہ دوستی کا رشتہ قائم کر چکا ہوں۔ ایسٹ لندن میں ہی بنگلہ دیشی بھائیوں کی بہت بڑی مسجد ہے جہاں پاکستانی بھی نماز پڑھتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں برادرانہ دوستی کا رشتہ مسجدوں میں تو موجود ہے کیا ”سینہ چاکانِ چمن کا“ پھر سے ملاپ نہیں ہوگا؟