• news

سود کیس : وفاق‘ صوبائی حکومتوں کو نوٹس‘ شریعت کورٹ نے سماعت پانچ نومبر تک ملتوی کر دی

سود کیس : وفاق‘ صوبائی حکومتوں کو نوٹس‘ شریعت کورٹ نے سماعت پانچ نومبر تک ملتوی کر دی

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز + آن لائن) وفاقی شریعت کورٹ کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے سود سے متعلق مقدمے کی سماعت ہوئی۔ وفاقی شریعت کورٹ نے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو نوٹسز جاری کردئیے۔ عدالتی بنچ نے حکم دیا ربا یا سود سے متعلق عوام الناس کیلئے 14 نکات پر سوالنامہ شائع کیا جائے۔ سود اور ربا کے درمیان فرق اور شرعی حیثیت پر 2 سکالرز نے عدالت کی معاونت کی۔ عدالتی معاون ڈاکٹر محمد ایوب نے عدالت کو بتایا ربا اور سود میں کوئی فرق نہیں۔ ربا پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں تشریح قرآن و سنت کے مطابق ہے۔ ڈاکٹر طاہر نے کہا قرض کی اصل رقم کے علاوہ ہر اضافی پیسے کی وصولی سود ہے۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق فیڈرل شریعت کورٹ میں ربا (سود) کے خلاف مقدمہ کی سماعت میں عدالت نے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنزلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 5 نومبر تک ملتوی کر دی۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان کی سربراہی میں جسٹس فدا حسین، جسٹس رضوان علی دودانی، جسٹس شیخ فاروق، جسٹس شہزاد شیخ پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نچے کیس کی سماعت کی۔ سماعت ہوئی تو مدعی مقدمہ حمیرا شاہد، شاہد واڈیلا، ڈائریکٹر شریعہ اکیڈمی ڈاکٹر محمد طاہر منصوری، ڈائریکٹر ریسرچ رفاہ یونیورسٹی محمد ایوب و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے بذریعہ اخبارات پبلک نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا عوام الناس معاملے سے متعلق اپنی سفارشات اور تجاویز عدالت کو دے سکتے ہیں۔ آن لائن کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے ربا (سود) کےس مےں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے عوامی آگہی کیلئے اشتہار شائع کرانے کا حکم دیا ہے سکالرز ڈاکٹر طاہر منصوری اور ڈاکٹر محمد اےوب نے سود کی تشرےح کرتے ہوئے عدالت کو بتاےا پہلے سے متعےن شرح پر قرض دےنا ربا(سود) ہے اور قرآن کے احکامات کے مطابق سود ہر شکل مےں حرام ہے۔ڈاکٹر طاہر منصوری نے عدالت کو مزید بتاےا وہ رقم جو تجارتی ےا روزمرہ استعمال کے لےے قرض پر دی گئی ہو اورقرض دار سے اصل زر سے زائد رقم سمےت وصول کی جائے تو ےہ سود ہے، انھوں نے بتاےا نفع اور نقصان کی بنےاد پر دےنے والے قرضے مےں سرماےہ دار نفع مےں حصے کا مجا ز ہے۔وفاقی شرعی عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کرد ےا ہے جبکہ عوام کو بذر ےعہ اشتہار آگاہ کرنے کی ہداےت کی ہے جبکہ درخواست گزار سلا مت چوہان کو مقدمے مےں فرےق بننے کی اجازت دےدی ہے، جسٹس شےخ احمد فاروق نے سوال اٹھاےا کچھ عرصہ بعد اصل زر کی قدر کم ہوجاتی ہے جس سے سرماےہ دار کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ اس نقصان کے وہ خود ذمہ دار نہےں ہوتے اس سوال پر سکالر طاہر منصوری نے بتاےا کہ زر کی قدر افراط زر کی وجہ سے کم ہوجاتی ہے اور قرض دار افراط زر کا ذمہ دار نہےں ہو تا اس لےے وہ شرعی لحاظ سے اضافی رقم دےنے کا پابند نہےں۔ جسٹس رضوان علی نے سوال اٹھاےا قرضہ واپس کرنے مےں تاخےر ہو تو پھر افراط زر کے نقصان کاکون ذمہ دار ہوگا جس کے جواب مےں بتاےا گےا اس صورت مےں نادہندہ نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے، جسٹس فاروق نے جب استحصال کا معاملہ اٹھاےا تو فاضل سکالر نے کہا سود خود اےک استحصال ہے۔سکالر محمد اےوب نے بتاےا قرآن کے اصول واضح ہے قرض خواہ کو وہی رقم ملے گی جو اس نے دی ہو، انہوں نے کہا مضاربہ کے اصول الگ ہےں اس مےں قرض خواہ اور قرض دار نفع و نقصان مےں برابر کے شرےک ہوتے ہےں۔انہوں نے کہا سود، ربا اور منافع ےہ تےنوں اےک چےز کے نام ہےں اور حرام ہےں ان کا کہنا تھا زرمبادلہ کے تصور نے پوری دنےا کو مالی تنگی کا شکار کےا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن