شیخ رشید کی محبت سے ڈر لگتا ہے؟
شیخ رشید کی باتوں کو واقعی لوگ پسند کرتے ہیں جراتْ گفتار بہت ضروری ہوتی ہے جرات کردار نہ بھی ہو تو پھر بھی گفتگو میں کسی گمشدہ آرزو کو شامل کر لیا جائے تو مزا آتا ہے۔ مزا ہو اور معانی بھی ہو تو بات پھکڑپن کے زمرے میں نہیں آتی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں نجی ٹی وی چینل پر ایک بھانڈ نے اچھی جگت کی۔ جگت بازی اور جملے بازی کبھی کبھی ایک جیسی ہو جاتی ہیں۔ وقار اور اعتبار بڑا ضروری۔ شیخ رشید کی باتوں میں مزا بھی ہوتا ہے اور معانی بھی۔ جرات بھی اور حقیقت بھی۔ وہ آٹھ بار وزیر بنے مگر ایک بار بھی وزیر شذیر نہیں رہے۔ انہیں کبھی وزیر بنایا نہیں گیا۔ انہوں نے خواہش کی ہو گی۔ کبھی کوشش نہیں کی۔ ایک بار وزیر رہنے والا بھی بے ضمیر ہو جاتا ہے۔ وہ بے ضمیر نہیں ہوئے مگر باضمیر بھی نہیں رہے۔ اس عرصے میں جب وہ وزیر تھے۔ انہوں نے خود کہا کہ میرا یہ زمانہ اچھا ہے جب میں وزیر نہیں ہوں۔ لوگوں نے اُن سے تعلق پہلے بھی محسوس کیا ہو گا مگر محبت اب کی ہے۔ عزت اب دی ہے۔
ان کی بہت باتوں سے میں گھائل ہوا۔ قائل نہیں ہوا مائل تو بالکل نہیں ہوا۔ ان کے لئے مائل ہونے کا کام خاص طرح کی عورتوں نے بہت کیا۔ شیخ صاحب خوش ہو کے کہتے ہیں کہ میں نے شادی نہیں کی اس کے لئے اللہ کا بہت شکر گزار ہوں۔ بقر عید کے لئے ہر چینل پر پروگرام ہوئے۔ سب سے بہتر لال حویلی میں کیا گیا۔ شیخ صاحب کا غیر سیاسی انٹرویو تھا جو اداکارہ ریشم نے کیا۔ اس میں شیخ صاحب کی یہ خودنمائی اچھی نہیں لگی کہ میں نے کعبے کی چھت پر نماز پڑھی ہے۔ میرے لئے روضۂ اطہرؐ کا دروازہ کھولا گیا۔ یہ تو جنرل مشرف کے لئے بھی ہوا تھا۔ شیخ صاحب جنرل مشرف کے وزیر بھی رہے۔ یہاں وزیر شذیر کی اصطلاح مناسب ہے۔ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ شذیر اور شریر میں کیا فرق ہے۔ میں نے کہا شذیر بے چارہ تو شریف بھی نہیں ہوتا۔ نوازشریف کے وزیر بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتے۔ میری تجویز ہے کہ آئندہ مسلمان حکمرانوں اور اُن کے عزیزوں اور وزیروں شذیروں کو روضۂ اطہرؐ کے اندر اور کعبے کی چھت کے اوپر نہیں جانے دینا چاہئے۔ کسی ملک کا صدر وزیراعظم وزیر شذیر ہونا کوئی کریڈٹ نہیں ہے۔ کریڈیبلٹی تو بالکل نہیں ہے۔ جنرل مشرف نے بھی اس بات کو اپنی صفائی اور بڑائی کے لئے بیان کیا ہے اور یہ غلط ہے بلکہ بے انصافی ہے۔ انہیں اس سعادت کا مستحق سمجھا جائے۔ وہاں تو اچھے دل والے اور عاشق رسولؐ کو جانا چاہئے۔ وہاں آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کو حضوری کے لئے موقعہ دینا چاہئے۔ شیخ رشید کے لئے یہ بات مناسب ہے کہ وہ نظامی صاحب سے محبت رکھتے ہیں۔ نظامی صاحب بھی انہیں پسند کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کا کیرئیر مجید نظامی کی نظر کرم کا مرہون منت ہے اور شیخ صاحب اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
ایک بات پاکستان کی بھارت میں بدنامی کا باعث وینا ملک کے لئے شیخ صاحب نے کہی ہے۔ وینا ملک جو کچھ بھارت میں کر رہی ہے یہ سب پاکستانیوں کی توہین ہے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ میں وینا ملک سے نفرت کرتا ہوں۔ بات تو ٹھیک ہے مگر میں تو اُسے نفرت کے قابل بھی نہیں سمجھتا۔ اس کے جواب میں جو بات وینا ملک نے کی ہے۔ کمال کی بات ہے۔
میں نے تو ایک بات کی اُس نے کمال کر دیا
وینا نے کہا کہ شیخ صاحب کی نفرت سے ڈر نہیں لگتا ان کی محبت سے ڈر لگتا ہے۔ یقیناً یہ بات وہی عورت کہہ سکتی ہے جسے شیخ صاحب کی محبت حاصل رہی ہو۔ وہ تو کہہ رہی ہے کہ شیخ صاحب نے مجھے چائے کی دعوت بھی کئی بار دی ہے۔ اس طرح کی باتیں ریشم نے انٹرویو کے دوران بھی کہیں تو شیخ صاحب نہ شرمانے کی طرح شرمائے۔ ایسی عورتوں کو بھی شیخ صاحب جانتے ہیں جو شرمندہ ہونے اور شرمانے میں کچھ فرق نہیں سمجھتیں۔
نوائے وقت کے ’’سرراہے‘‘ میں وینا ملک کو سکینڈل کوئین کہا گیا ہے تو شیخ صاحب کو سکینڈل کنگ بھی کہہ دیا جاتا۔ تو بات مکمل ہو جاتی۔ میرا خیال ہے کہ یہ شیخ صاحب کی وزارت کی کہانیاں ہیں۔ اسے وزارتی نشانیاں بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ بڑے فخر سے اپنے جنسی سکینڈلز کا اعتراف کرتے ہیں۔ صرف شرماتے ہیں۔ ہر طرح کے سکینڈلز تو ہر چھوٹے بڑے حکمران کی زندگی میں ہوتے ہیں۔ وہ شرماتے نہیں گھبراتے ہیں۔ کوئی خاص کرپشن (فنانشل) کا سکینڈل شیخ صاحب کے ساتھ منسوب نہیں ہے۔ 41 برس کی غیر شادی شدہ اداکارہ خوبرو ریشم نے شادی کے لئے بات کی تو شیخ صاحب نے انہیں شادی کرنے کا مشورہ دیا۔ شاید ریشم اس پر سوچتی کہ شیخ صاحب اپنے لئے کوئی آفر کرتے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ شادی کرتا تو نیب کی گرفت میں ہوتا۔ وہ نیب کی گرفت میں ہوتے تو گرفتار ہی ہوتے۔ کسی کو سزا تو آج تک نہیں ملی گرفتار تو شیخ صاحب بچپن سے یعنی طالب علمی کے زمانے سے ہو رہے ہیں۔ شیخ صاحب کے بقول بیویاں ذلیل کراتی ہیں۔ وہ یہ بھی بتا دیں کہ منکوحہ اور محبوبہ میں کیا فرق ہے؟ شادی ایک قلعہ ہے جو اندر ہیں وہ باہر آنا چاہتے ہیں جو باہر ہیں وہ اندر جانا چاہتے ہیں۔ میں سٹوڈنٹ لیڈر شیخ رشید کو جانتا ہوں۔ گارڈن کالج میں لیکچرار کے طور میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ شیخ رشید اور پرویز رشید وہاں سٹوڈنٹ کم تھے سٹوڈنٹ لیڈر زیادہ تھے۔ شیخ رشید میں دلیری زیادہ تھی۔ پرویز رشید میں دلبری زیادہ تھی۔ دلیری بھی کم نہ تھی۔ شیخ رشید جیت کر صدر یونین بن گیا۔ پرویز رشید ہار کر جیالا بن گیا۔ دونوں نے اپنی اپنی ’’منزل‘‘ حاصل کر لی ہے۔ کاش یہ لوگ کامیابی اور ناکامی کی حقیقت کا بیک وقت اندازہ کر سکتے۔ ایوان اقتدار اور جیل کے کمرے میں فرق ہوتا ہے۔
شیخ صاحب کی باتیں ٹی وی چینلز کے لئے ہاٹ کیک ہیں۔ وہ کولڈ کیک سے بھی اچھا خاصا کام لیتے ہیں۔ سب اینکر پرسن اُن کی لال حویلی میں حاضری دیتے ہیں۔ ایک شائستہ اور پڑھا لکھا اینکر پرسن طلعت حسین مجھے پسند ہے۔ شاید اُس نے شیخ صاحب کے ساتھ کوئی پروگرام نہیں کیا۔ یہ لوگ تنقیدی پروگرام بھی کرتے ہیں مگر اُن کے لئے دوستانہ تنقید بھی لکھ دی جائے تو یہ ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہی حال حامد میر کا ہے۔ میں اسے دیکھوں تو مجھے وارث میر یاد آ جاتے ہیں۔ مگر وہ تنقید سے بالاتر ہیں۔ شکر ہے شیخ رشید نے اینکر پرسن کے لئے کئی چینلز کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ پھر وہ یہ باتیں نہ کر سکتے جو لوگوں کو پسند آتی ہیں۔