ملک میں ظالم اور مظلوم کیلئے الگ الگ نظام ہے۔ غریب کا تحفظ کرنے والا کوئی نہیں ۔ سپریم کورٹ
اسلام آباد(آئی این پی) سپریم کورٹ نے پلوشہ قتل کیس کی ایف آئی آر پشاور کی بجائے اسلام آباد میں درج کرنے میں ملوث وفاقی پولیس اورخیبر پی کے پولیس کے اعلی افسران کو عدالتی احکامات کے تحت گرفتار نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی اور کے پی کے حکومت کو عملدرآمد کرنے کیلئے 25 اکتوبر تک کی مہلت دیدی ، بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں ظالم اور مظلوم کیلئے الگ الگ نظام ہے۔ عدالت نے حضرت علیؓ کا قول دہراتے ہوئے کہا کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا‘ اعلی افسران ایک دوسرے کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں مگر غریب کا تحفظ کرنے والا کوئی نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کے 11 جولائی کے فیصلے پر اب تک عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ پلوشہ قتل کی ایف آئی آر جائے وقوعہ کی بجائے اسلام آباد میں درج کرنے میں سابق آئی جی اور ایس ایس پی سطح کے دس افسر ملوث تھے انہیں اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا‘ صرف اسلئے کہ تمام ہی بااثر لوگ تھے۔ قانون اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی کی لطیف آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ غفلت کے مرتکب افسران کو تبدیل کرکے محکمانہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب عدالت ان افسر کیخلاف فوجداری دفعات کے تحت کارروائی کا حکم دے چکی تھی تو تمام افسران کو گرفتار کرکے چودہ دن کے اندر چالان پیش کیوں نہیں کئے گئے‘ محکمانہ کارروائی کافی نہیں تھی جس کیخلاف کیس رجسٹرڈ کرکے سب کو حراست میں لینا چاہئے تھا سیکرٹری داخلہ اور ثیف سیکرٹری کے پی کے کو ایک ٹیم بنانی چاہئے تھی۔ ان افسران میں سے ایک افسر تو وہ ہے جو سیالکوٹ واقعہ میں ملوث تھا۔ کے پی کے حکومت نے ابھی تک عدالتی حکم پر عمل کیوں نہیں کیا۔ سب افسران کی ملی بھگت سے ہوا۔ پولیس افسر نے بے ایمانی کی حد کر دی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ اے آئی جی وقار احمد اور ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان پر مشتمل ایک ٹیم بنائی گئی تھی جس نے یہ انکوائری کرنی تھی کہ قتل کی ایف ائی آر جائے وقوعہ کی بجائے اسلام آباد میں کیوں درج کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب سابق ایس ایس پی آپریشنز فاروق یاسین و دیگر افسران سپریم کورٹ کے سامنے بیان دے چکے ہیں کہ انہوں نے آئی جی کے کہنے پر خلاف قانون اقدامات کئے تو پھر مزید کس انکوائری کی ضرورت تھی۔ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے چیف سیکرٹری کو بتایا کہ چار روز کے اندر غفلت کے مرتکب افسران کو گرفتار کرکے عدالت میں رپورٹ جمع کرادی جائے گی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اس وقت کے سیکرٹری داخلہ قمرالزمان چودھری سے بھی پوچھا جائے کہ عدالتی احکامات پر عمل کیوں نہیں کیا جارہا۔ عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے وگرنہ چیف سیکرٹری کے پی کے سابق سیکرٹری داخلہ کیخلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیتے۔