• news
  • image

ڈرون حملوں کی حمایت میں مسلسل کمی ہوئی‘ امریکی تھنک ٹینک‘ مشرف اور گیلانی حملوں کے حامی رہے ہیں : بی بی سی

ڈرون حملوں کی حمایت میں مسلسل کمی ہوئی‘ امریکی تھنک ٹینک‘ مشرف اور گیلانی حملوں کے حامی رہے ہیں : بی بی سی

واشنگٹن (نیٹ نیوز + بی بی سی) پاکستان میں 2004ءسے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے، نیو امریکہ فا¶نڈیشن نامی تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے دس ماہ کے دوران بیس ڈرون حملے کئے گئے جن میں سترہ شمالی اور تین جنوبی وزیرستان میں کئے گئے۔ بی بی سی کے مطابق امریکی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 104 سے 127 افراد ہلاک ہوئے جن میں صرف تین سے پانچ عام شہری تھے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ان بیس ڈرون حملوں میں سترہ کا ٹارگٹ غیر واضح تھا، چار حملوں میں طالبان، دو میں القاعدہ اور ایک میں حقانی نیٹ ورک کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کے ایوانوں، جلسہ گاہوں اور میڈیا سے بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر شہری ڈرون حملوں کا مخالف ہے لیکن کچھ تحقیقی رپورٹس اور سروے بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں۔ امریکی تھنک ٹینک پی ای ڈبلیو ریسرچ گلوبل انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ 2010ءمیں بیس فیصد افراد ڈرون حملوں کی حمایت کرتے تھے، اگلے چھ ماہ بعد اس کی حمایت بڑھ کر چوبیس فیصد ہو گئی لیکن اس کے بعد سے اس حمایت میں مسلسل کمی ہوتی گئی اور 2012ءکے سروے کے مطابق صرف سترہ فیصد لوگ ڈرون حملوں کے حمایتی تھے۔ اس سے پہلے مقامی ادارے آریانہ انسٹیٹیوٹ فار ریجنل سٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی کے 2009ءکے سروے کے مطابق قبائلی علاقوں کے اس سروے میں شریک باون فیصد افراد کا خیال تھا کہ ڈرون حملوں کی سمت درست ہے، ساٹھ فیصد کا ماننا تھا کہ ان حملوں سے شدت پسند کمزور ہوئے ہیں۔ آریانہ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شہری علاقے اور مڈل کلاس کا وہ طبقہ جو ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ساتھ زیادہ وابستہ ہے اس کا خیال ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں اور اس سے عام لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ڈرون حملوں میں اضافے سے مقامی طور پر مثبت نتائج نکلتے ہیں کیونکہ جب کبھی بھی ڈرون حملوں کا تناسب بڑھا تو مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ شدت پسندی کے واقعات میں کمی آئی، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کم ہوتی ہیں، اس کے علاوہ جب شدت پسندوں کی نقل و حرکت میں مشکلات آتی ہیں تو عام لوگوں کی نقل حرکت آسان ہو جاتی ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی انڈیانا میں پی ایچ ڈی کے طالب علم زبیر محسود جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے گاو¿ں میں بھی ڈرون حملہ ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی افراد کا خیال ہے کہ ڈرون واحد ہتھیار ہے جو ان لوگوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے جنہوں نے قبائلی لوگوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ بی بی سی کے مطابق لوگ اس کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں کہ جو ڈرون حملہ ہوتا ہے وہ نشانے پر لگتا ہے، اس میں مارے جانے والے اکثر دہشت گرد ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس (بقول ان کے) پاکستانی فوج نے جب بھی آپریشن کئے ہیں، اس کے نتیجے میں بے شمار گھروں، سکولوں اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا، اس کے باوجود آج تک کسی ایک بڑے دہشت گرد کا نام نہیں لے سکتے جو آپریشن میں گرفتار یا مارا گیا ہو۔ بی بی سی کے مطابق نیک محمد، بیت اللہ محسود، ملا نذیر اور مولوی ولی الرحمن جیسے انتہائی مطلوب طالبان رہنما بھی امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے جن تک پاکستانی فورسز رسائی حاصل نہیں کر سکیں تھیں۔ پاکستان کی حکومت ڈرون حملوں کی سرعام مخالفت کرتی رہی ہے لیکن اندرونی طور پر اس کی حمایتی نظر آتی ہے، پرویز مشرف ہوں یا سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ان حملوں کی حامی سمجھے جاتے ہیں۔ اس کی گواہی امریکہ کی سابق سفیر این پیٹرسن کے وکی لیکس کی جانب سے جاری کئے گئے ایک مراسلے سے ملتی ہے۔ پیٹرسن نے اگست 2008ءکے اپنے مراسلے میں یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کا حوالہ دیا تھا اور کہا کہ اس وقت کے وفاقی وزیر رحمن ملک کا کہنا تھا کہ باجوڑ آپریشن تک ڈرون حملوں کو روکنا چاہئے لیکن یوسف رضا گیلانی نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے جاری رہنے چاہئیں، ان پر قومی اسمبلی میں احتجاج کریں گے، بعد میں اسے نظرانداز کریں گے۔ پاکستانی فوج کے سابق بریگیڈیئر اور دفاعی تجزیہ نگار محمد سعد کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ ان حملوں میں پاکستان کی رضامندی شامل ہو، خاص طور پر جب پرویز مشرف سربراہ مملکت تھے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے تک تو ڈرونز پاکستان سے اڑتے رہے، اس کے بعد شمسی ایئر بیس خالی کرایا گیا، مطلب تو یہ ہوا کہ جو ڈرون آپ کے علاقے سے اڑ رہا ہے اس میں آپ کی رضامندی تو شامل ہو گی۔ دفاعی تجزیہ نگار محمد سعد کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ڈورن حملوں سے امریکہ اور پاکستان کو فائدہ پہنچا ہو لیکن اس کی بنیاد پر وہ لوگ جو دوسرے کے جذبات بڑھکا رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لوگ ڈرونز کے خلاف ہوں گے لیکن ساتھ میں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ہمارے پاس بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسرے ممالک میں جا کر دہشت گردی کرتے ہیں یا پاکستان میں شورش میں ان کا ہاتھ ہے، اگر ڈرون حملوں سے حکومت کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے تو وہ بھی یہ خودمختاری پامال کر رہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کی اجازت کے بغیر اس کی سرزمین پر بیٹھے ہیں اور دہشت گردی میں ملوث ہیں۔
ڈرون حملے / سروے

epaper

ای پیپر-دی نیشن