• news
  • image

امام الذاکرین سلطان الفقراءالسیّد حضرت خواجہ زندہ پیرسرکار ؒ

امام الذاکرین سلطان الفقراءالسیّد حضرت خواجہ زندہ پیرسرکار ؒ

آف گھمکول شریف (کوہاٹ)
تحریر: ایس اے حکیم القادری
آقائے نامدار اُن تمام معجزات کل جو انبیاءکو دیئے گئے تھے، آپ ان کی کُلی صورت کے اندر اِن تمام معجزات کے مخزن تھے ۔ آپ کی ذات بابرکت سے وہ تمام معجزات دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے۔ آپ کے فیض صحبتِ اثر سے دلوں کی بگڑی دنیا سنور گئی۔ معلم کائنات اپنا مشن پورا کرنے کے بعد دنیا سے پردہ فرما گئے۔ لیکن آپ کا مشن اور آپکی دعوت رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔ آپ کے وصال کے بعددعت دین کا یہ سلسلہ صحابہءکرامؓ اور محدثین سے ہوتا ہوا اصحاب باطن اور اولیا ءاللہ تک جا پہنچتا ہے۔
یہ برصغیر کی انتہائی خوش نصیبی ہے کہ یہاں اسلام کا نور انہی بزرگوںاور مشائخ و عظام کے ذریعے پھیلا۔ ان ہی ہستیوں میں 1912ءمیں جنگل خیل کوہاٹ کی سر زمین پر خواجہ پیر غلام رسول کے ہاں پیر آف گھمکول شریف کی ذات گرامی نے جنم لیا۔ آپ نے ابتدائی مذہبی تعلیم اپنے گاو¿ںکے محلہ اخوان خیل میں مدرسہ تعلیم القرآن سے حاصل کی۔ بچپن میں ہی خاموش طبع اور عجز و انکسار کے مالک تھے ۔جس کی وجہ سے کم عمر ی میں ہی تمام مسائل شریعت و طریقت اور علوم منطق و فلسفہ کی روشنی سے آپکی چشم باطن منور ہوچکی تھی۔ تلاش شیخ طریقت کےلئے آپ حضرت امام علی الحق شہید ؒ سیالکوٹ کے مزار اقدس پر مراقب ہوئے اور تشنہءلب موہڑہ شریف مری پہنچ گئے، جہاں حضرت خواجہ محمدقاسم موہڑوی نے آپ کو دور سے ہی دیکھ کر تبسم فرمایا اور کھڑے ہوکر معانقہ کیا۔ پہلی ملاقات میں ہی داخلِ بعیت ہو گئے کچھ عرصہ بعد شیخ طریقت نے خلافت سے نوازا اور ایبٹ آباد کی طرف بھجوادیا۔
آپ نے ایبٹ آباد شکر بانڈی پُل کے قریب سکونت اختیار کی اور روزگار کیلئے فوجی جوانوں کی وردیوں کی سلائی کاکام آنا شروع ہوگیا۔ پھر اسی خطہ ءپاک سے رشد و ہدایت کے ذریعے ہزارہا طالبین حق کے قلوب کو اپنے فیوض و برکاتِ روحانی سے منور کردیا۔ 1952ءمیں پہلی بار حج مبارک کی سعادت حاصل کرنے کےلئے گئے تو گنبدِ حضریٰ کے سامنے کھڑے ہو کر مقصودِ کائنات محمد مصطفی کی بارگاہ میں ملتجی ہوئے کہ میرے لئے کیا حکم ہے، کہ گنبدِ حضریٰ سے فرمان ہوا پہاڑ کی طرف دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے سارے حجابات درمیان سے اٹھا دیئے اور حجرہ مقدسہ سے متصل پہاڑی پر عالم غیب سے آپ کا نام ظاہر ہو گیا۔ دوسرا حج مبارک 1968ءمیں، تےسرا 1971مےں اور اس کے بعد 26حج بلا ناغہ ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔ساڑھے نوسوسال قبل گنبدِ حضریٰ سے بنی پاک کے ہاتھ مبارک کا اشارہ خواجہ اجمیر شریف کے لئے ہوا کہ ہند میں جاکر اجمیر شریف کو آباد کریں تو دوسری بار گنبدِ حضریٰ سے ہاتھ مبارک کا اشارہ ہوتا ہے کہ گھمکول شریف کے قیام و آبادی کےلئے، یہی امتیازی حیثیت ہے کہ اس دربار اقدس کا ظہور معلم کائنات کے اشارہ پاک کی برکت سے ہے۔
ہر پیر طریقت کو اپنے شیخ کامل نے دین کی تبلیغ و اشاعت کےلئے بیٹھایا ہے مگر گھمکول شریف میں زندہ پیر کو معلم کائنات محمد مصطفی نے اس جگہ کوپسند فرماتے ہوئے بیٹھایا ہے۔ اپنی تمام زندگی میں حضرت زندہ پیر صاحب نے29مرتبہ فریضہ حج ادا فرمایا ہے۔ اور ہر بار 40سے 70 افراد اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔ آ پ کا مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی کے باہر ایسا لنگر چلتا ہے کہ ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق طعام کھاتے ہیں۔ آپ کے عقیدت مند دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ جن میں دبئی ، قطر، مسقط، سعودی عرب، کویت، برمنگھم، لندن، ساﺅتھ افریقہ بلکہ ان تمام جگہوں پر آپ کے عرس مبارک منائے جاتے ہیں۔ اور گھمکول شریف میں ہی تادم واپس حضرت زندہ پیر صاحب کا درس شریف جاری رہا۔ جس سے اطراف و اکناف کے لاتعداد تشنگانِ علوم معرفت سیراب ہوکر نکلے اور ایسے نکلے کہ خود انہوں نے اپنے سرچشمہ باطنی سے لاکھوں کو فیض یاب کیا۔ حضرت زندہ پیر صاحب کی ذات گرامی شیخ کے مرتبہ عالی پربلند سلوک اور روحانی کیفیات کی حامل تھی۔ آپ سال کے 365دنوں میں سوائے ممنوعہ ایام کے روزہ رکھتے اور روٹی کے چار ٹکڑے کرتے اور اس میں سے ایک ٹکڑا تناول فرماتے باقی لوگوں میں تقسیم فرمادیتے اور کئی کئی دن نمک سے افطاری فرماتے آخری ایام میں طبعیت ناساز رہنے لگی تو علاج معالجہ سے انکار کردیتے اور فرماتے کی جنگل میںاگر کوئی بیمار ہوتو صرف اللہ تعالیٰ ہی علاج کرتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بیماری آئی ہے۔ لہٰذا وہی شفا بخشے گا۔ آخر کار گردوں کے امراض میں مبتلاہوگئے۔ تو ڈاکٹروں نے روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا۔ مگرآپ نے مناسب نہ سمجھا کہ ایسا کیا جائے۔ خوراک کی کمی کے باعث صحت بالکل نحیف ہوگئی تو طریقت و معرفت کا یہ مہتاب لاکھوںدلوںمیںخوف خداوعشق مصطفی کی شمع فروزاںاورعلم وحکمت،رشد و ہدایت کے چراغ روشن کرنے کے بعد 3ذوالحج1419ہجری بمطابق22مارچ1999ءبروزسوموار87سال کی عمر میںاس دنیا فانیٍ سے رحلت فرما گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون، آپ کے وصال کے بعد آپ کے فرزندارجمند حضرت خواجہ پیر منور شاہ المعروف بادشاہ صاحب کی دستاربندی ہوئی تو انہیں گھمکول شریف کا سجادہ نشین مقرر کیا گیا۔آپ کے 66ویں سالانہ عرس مبارک کی تین روزہ تقریبات 25اکتوبر بروز جمعتہ المبارک سے دربار عالیہ نقشبندیہ گھمکول شریف کوہاٹ میں شروع ہو ری ہیں جو 27اکتوبر اتوار2013تک جاری رہیں گی۔عرس میں ملک بھر کے علاوہ بیرون ممالک سے بھی خلفاءعظام ،علماءو مشائخ اور نعت خواں و مریدین کی کثیر تعداد شرکت کر ے گی۔اختتام پر سجادہ نشین پیر بادشاہ سرکار وطن عزیز اور عالم اسلام کےلئے خصوصی دعا فرمائیں گے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

epaper

ای پیپر-دی نیشن