لاپتہ افراد کے معاملہ پر پارلیمنٹ اور حکومتوں کی خاموشی شرم کی بات ہے، پشاور ہائی کورٹ
پشاور (اے پی اے) پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملہ پر پارلیمنٹ اور حکومتوں کی خاموشی شرم کی بات ہے، سب ڈر رہے ہیں، جب تک پارلیمنٹ کوئی ایکشن نہیں لیتی لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، عدالت نے وفاقی اور صوبائی محکموں کو لاپتہ افراد سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لئے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ نے تفصیلات جمع کرانے کے لئے ایک ماہ کی مہلت مانگ لی۔ چیف جسٹس دوست محمد خان نے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں، انٹیلی جنس اداروں کے حکام تحقیقات کریں، انہیں آخری وارننگ دیتا ہوں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جن لاپتہ افراد کے خلاف ٹھوس شواہد ہیں، انہیں خصوصی مراکز میں منتقل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومتیں خاموش ہیں۔ سارا ملبہ عدالتوں پر ڈال دیا جاتا ہے، سب ڈر رہے ہیں۔ این این آئی کے مطابق عدالت نے لاپتہ افراد سے متعلق قائم ٹاسک فورس کی تحقیقاتی رپورٹ 7 نومبر کو طلب کر لی۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ ملک میں ایجنسیوں کے خلاف عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ حکومت اور پارلیمنٹ ایجنسیوں کے لئے قانون سازی کرنے میں ناکام ہے، لاپتہ افراد کے ہزاروں خاندان عذاب میں مبتلا ہیں۔ اے پی پی کے مطابق سپریم کورٹ نے چکوال سے لاپتہ ہونے والے دو افراد عمر بخت اور عمر حیات کی بازیابی کے مقدمہ میں معاملہ دوبارہ انکوائری کیلئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چکوال کو ارسال کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ نائیک انوار اور دیگر کے بیانات ریکارڈ کئے جائیں اور ان پر جرح کے بعد15روز میں انکوائری مکمل کرکے سپریم کورٹ کو رپورٹ بھجوائی جائے، ہمارا مقصد لاپتہ افراد کی بازیابی ہے جس کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔